• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے طاقتور ترین گورنر نواب امیر محمد خان آف کالا باغ کے خلاف1964 میں جلوس نکالنے پر پہلی بارحوالات جانے اورملک بھرمیں سی ایس ایس میں ٹاپ کرنے والے بیرسٹر اعتزاز احسن جب بولتے ہیں تو واقعی پن ڈراپ سائیلنس ہوتا ہے۔ آزادی اور انقلاب مارچ کے دوران قومی اسمبلی اور سینیٹ کے منعقدہ مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بیرسٹراعتزاز احسن نے ایک لطیفہ سنا کر وزیرا عظم اور ان کی کابینہ کے ارکان پر دلچسپ پیرائے میں تنقید کی تھی جو پارلیمنٹ کا راستہ بھولے ہوئے تھے۔ انہوں نے آزادی اور انقلاب مارچ کو اس تھانیدار سے تشبیہ دی تھی جس نے ایک نافرمان بیٹے کو پولیس کے روایتی مہمان خانے کی سیر کرائی تو وہ ماں کو پکارنے لگا ، ماں نے ناخلف بیٹے کی چیخ و پکار سن کر کہا کہ شاباش او تھانیدارا،توں اس نوں ماں تے یاد کرا دتی اے۔نظام کی تبدیلی کے ایک طلبگار اوردعوے دار تو اپنے انقلاب کی کچھ نشانیاں شاہراہ دستور پر چھوڑ کر دوسرے شہروں کو سدھارچکے اور دوسرے ملک کینیڈا کی راہ لے رہے ہیں۔ پاکستانی عوام کی زندگی میں انقلاب تو نہ آسکا، اب انہیں حقیقی آزادی بھی نصیب ہوتی ہے یا نہیں یہ انتظار چند دن اور سہی تاہم احتجاج اور دھرنے کی اس نئی سیاست نے موجودہ حکومت کوخوداحتسابی پر ضرور مائل کردیا ہے۔ حکومت کو یہ ادراک بخوبی ہو چکا ہے کہ1999ءاور 2014ءکے پاکستان میں بہت فرق ہے۔ اب عوام کو بہتر مستقبل اور خوشحالی کے وعدوں سے نہیں بہلایا جا سکتا۔ حالیہ دباؤ کی وجہ سےحکومت مجبورہو گئی کہ وہ گزشتہ ڈیڑھ سال کارکردگی پر اپنا احتساب خود کرے۔ اسی سلسلے میں وزیراعظم نے28 اکتوبر کو وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس طلب کیا ہے جس میں وزراء اپنا اعمال نامہ پیش کریں گے۔ اس وقت وزیر اعظم کی ٹیم میں 20 وفاقی وزراء،10 وزراء مملکت،2 مشیر اور5 معاون خصوصی شامل ہیں جبکہ19پارلیمانی سیکرٹریز بھی موجود ہیں۔آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد وزیر اعظم پر یہ قدغن ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی مجموعی تعداد کی گیارہ فیصد سے زیادہ وفاقی وزراء اور وزراء مملکت نہیں رکھ سکتے۔وزراء میں سینیٹ سے صرف ایک چوتھائی ارکان شامل کئے جا سکتے ہیں جبکہ مشیروں کی تعداد بھی پانچ سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ اس طرح وفاقی کابینہ میں 49 سے زیادہ وزراء شامل نہیں کئے جا سکتے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار وفاقی وزراء کی باز پرس پر مبنی کابینہ کا یہ اہم اجلاس تین سے چار دن مسلسل جاری رہے گا۔ اجلاس میں شرکت سے پہلے وزراء کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں اور پارلیمنٹ کی راہداریوں میں وہ ایک دوسرے کو تسلیاں دیتے اوربریفنگ کی تیاری کے گرپوچھتے نظر آتے ہیں۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ اپنی ٹیم کی کارکردگی جانچنے کا یہ عمل انتہائی دانشمندانہ ہے اور اسی کے ذریعے ایسے نااہل ارکان کی خوش فہمی دور کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک بارجھنڈے والی گاڑی میں بیٹھ گئے تو نئے انتخابات تک عوام سے بے نیاز ہو گئے ہیں۔ وفاقی وزراء سے ان کی کامیابیوں کی داستان سننے سے پہلے وزیر اعظم نے اپنا ہوم ورک مکمل کررکھا ہے۔ وزیرا عظم آفس نے تمام وفاقی وزراء، وزرائےمملکت،مشیروں اور خصوصی معاونوں بارے میں جائزہ رپورٹیں تیار کررکھی ہیں جو کابینہ اجلا س میں انکے سامنے رکھ دی جائینگی۔ وزیر اعظم کی ہدایات پر گزشتہ دنوں جب یہ جائزہ رپورٹیں تیار کرنے کی ذ مہ داری وزیراعظم آفس میں تعینات شریف برادران کے انتہائی قریبی بیوروکریٹ کوسونپی گئی تو کچھ وزراء اس پر ناخوش تھے لیکن ان کی سنی ان سنی کردی گئی تھی۔ اب وزیر اعظم کی سربراہی میں مسلم لیگ ن کے چیئرمین راجہ ظفرالحق اور سیکرٹری جنرل اقبال ظفر جھگڑا پر مشتمل تین رکنی کمیٹی وزراء کے مستقبل کے بارے میں حتمی فیصلہ کرے گی۔اطلاعات ہیں کہ کارکردگی کی بنیاد پر کچھ وزراء کے قلمدان تبدیل کرنے کے ساتھ کابینہ میں توسیع بھی کی جا رہی ہے لیکن یہاں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ دنیا بھرمیں حکومتی نمائندوں کی کارکردگی کوجانچنے کےلئے بنیادی کارکردگی کے اشاریے طے ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں ایسے کوئی اشاریے پہلے سے مقرر نہیں ہیں اسلئے احتساب کا یہ عمل ایک پیچیدہ مشق ہوگی۔ یہ بھی بڑی دلچسپ بات ہے کہ ایک وزیراگر ایک شعبے میں کوئی قابل ذکر خدمات سرانجام نہیں دے سکا تو پھر صرف اس کا قلمدان تبدیل کر دینے سے کیا چمتکار ہو جائے گا۔ ایسا تجربہ کرنے کی بجائے کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ اسے فارغ کردیا جائے ۔ عوامی فلاح و بہبود کے اہم منصوبوں کی تیاری اورتکمیل کیلئے مختلف وزارتوں کے درمیان قریبی رابطہ ناگزیر ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ کابینہ کے بعض اہم وزراء کے درمیان سلام دعا کا تعلق بھی نہیں ہے اور اگر حالیہ احتجاجی سیاست شروع نہ ہوتی تو اس امر کا بھی امکان تھا کہ اب تک جوتیوں میں دال بٹ رہی ہوتی۔وزیراعظم صاحب کو اس حوالے سے اگر مزید اطلاعات درکار ہیں تو صرف یہ معلوم کر لیں کہ قومی سلامتی پالیسی پرعمل درآمد کے لئے مہینوں گزر جانے کے باوجود فنڈ فراہم کیوں نہ ہوسکے۔ وزارت داخلہ اوروزارت دفاع کے کے درمیان رپورٹنگ کے حوالے سے کیا کھینچا تانی جاری ہے۔ منصوبہ بندی کمیشن کی سفارشات پر وزارت خزانہ اچٹتی نظر ڈالنے سے بھی کیوں گریزاں ہے۔ خود احتسابی کے اس عمل میں اس تاثر کو بھی زائل کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ موجودہ حکومت صرف دس لوگ چلا رہے ہیں جن میں شریف برادران اور ان کے عزیز و اقارب کے علاوہ چہیتے بیوروکریٹ شامل ہیں۔رائٹ مین فاررائٹ جاب کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے وزارت خارجہ،وزارت دفاع اور وزارت قانون و انصاف کے قلمدان بھی تقسیم کرنے کی ضرورت ہے۔ جو وزیر دفاع پارلیمنٹ میں موجود اپنے چیمبر کو لگایا گیا تالا نہ کھلواسکے وہ اپنی وزارت کے معاملات میں کس حد تک دخل اندازی کرسکتا ہے۔ ادھر امیر مقام ہیں جنہیں عرصہ ہوا مشیر بنایا گیا لیکن آج تک قلمدان ملا نہ دفتر وجہ شاید یہ ہے کہ وہ ابھی تک سابق صدر پرویزمشرف کے دوست ہونے کا لیبل نہیں اتروا سکے لیکن اطلاع یہ بھی ہے کہ کابینہ میں جو نئے وزراء لئے جارہے ہیں ان میں بھی سابق آمر کے وفادارشامل ہیں۔ اس تمام صورتحال میں وزیرخود احتسابی کی محض رسمی کارروائی پوری نہ کریں بلکہ یہ تلخ حقیقت مد نظررکھیں کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں عوام کی زندگی پہلے سے ابتر ہوئی ہے کسی طرح بھی بہتر نہیں۔ عوام نے موجودہ حکومت سے جو توقعات وابستہ کی تھیں وہ تاحال پوری نہیں ہوئی ہیں۔اس ساری مشق میں منصفوں کو بھی احتیاط کی ضرورت ہے کہ وزراء کو اختیارات کس حد تک دئیے گئے ہیں۔ احتساب کا یہ عمل بلا امتیاز ہونا چاہئے۔
تازہ ترین