• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آئن اسٹائن کے الفاظ مستعار لوں توایک ہی تجربہ باربار اس امید پر دہرانا کہ اس مرتبہ نتیجہ مختلف نکلے گا،پاگل پن اور دیوانگی ہے۔اُس نے نہ جانے کب اور کس پیرائے میں یہ بات کہی تھی مگر میں جب بھی مشرقی سرحد کے اس پار میڈیا کو چیختے چنگھاڑتے اور جنگی جنون ابھارتے دیکھتا ہوں تو مجھے کارل مارکس ضرور یاد آتا ہے۔اس سے کسی نے پوچھا ،جنگیں کیوں ہوتی ہیں؟ مارکس نے ہنستے ہوئے کہا ، حکام صحافیوں کے کان میں جھوٹ بولتے ہیںاور جب یہ جھوٹ اخبارات میں چھپتا ہے تو وہ خود بھی اس پر یقین کر لیتے ہیں۔مارکس نے تو یہ بات تب کہی جب قلم تلبیس اطلاعات کا اکلوتا ہتھیار تھا ،اب تو نشریاتی و سماجیاتی ابلاغ نے جنگ و جدل کے اندازو اطوار ہی بدل دیئے ہیں۔امریکی مصنف Hiram Johnson نے میڈیا کی دروغ گوئی اور غلط بیانی کا اِدراک کرتے ہوئے کئی برس پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ جب جنگ ہوتی ہے تو کسی انسان کی لاش گرنے سے پہلے سچ کا قتل ہوتا ہے۔میڈیا پر چیخنے چلانے اور جنگ کی دہائی دینے والوں کو معلوم نہیں کہ جنگ کیسی ہولناک اور خوفناک بلا کا نام ہے۔بھارتی میڈیا کے ان جنگجوئوں کو چند دن رپورٹنگ کیلئے شام ،لیبیا،یمن یا عراق بھیج دیا جائے تو انہیں معلوم ہو کہ جنگ کیسے پلک جھپکتے میں شہروں کو کھنڈرات میں بدل دیتی ہے۔طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ جنگ کا فیصلہ تو وہ بوڑھے کرتے ہیں جو اپنی زندگی کی رنگینیاں دیکھ چکے ہوتے ہیں مگر لڑائی کی صورت میں اپنی زندگیاں جوان رعنا لٹاتے ہیں۔ یہ بھی کیسی تلخ حقیقت ہے کہ زمانہ امن میںتو نوجوان اپنے بزرگوں کو دفناتے ہیں مگر حالتِ جنگ میں بوڑھوں کو اپنے ناتواں کندھوں پر جوانوں کے جنازے اٹھانا پڑتے ہیں۔Stanly Baldwinنے کیا خو بصورت بات کہی ہے کہ اگر مُردے واپس آسکیں تو دوبارہ کبھی جنگ نہ ہوکیونکہ جنگ کی ہولناکیوں سے وہ خوب واقف ہیں۔یہ قیامت خیز دور جس میں ہم زندہ ہیں ،اس کی تباہ کاریوں کا تصور کرتے ہوئے آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ تیسری عالمی جنگ کن ہتھیاروں سے لڑی جائے گی مگر یہ بات پورے وثوق کیساتھ کہہ سکتا ہوں کہ چوتھی عالمی جنگ لاٹھیوں اور پتھروں سے لڑی جائے گی۔نہ جانے کس مٹی سے بنے ہیں وہ احمقوں کے شہنشاہ جو سوچے سمجھے بغیر کہتے پھرتے ہیں کہ ایٹمی جنگ ہوتی ہے تو ہو لینے دو۔پہلے بی جے پی کے رہنما سبرامینن نے یہ ہرزہ سرائی کی تھی کہ اگر پاکستان کے ایٹمی حملے میں دس کروڑ بھارتی شہری مرتے ہیں تو مرنے دولیکن اسکے بعد اس ملک کوصفحہ ہستی سے مٹا دو۔اور سرجیکل اسٹرائیک کی فلاپ فلم کے بعد حکمران جماعت کے ایک اوررُکن اسمبلی نے یہ درفنطنی چھوڑی ہے۔ایسے بدحواس لوگوں کا صحیح ٹھکانہ پارلیمنٹ نہیں پاگل خانہ ہے۔کوئی ان بے وقوفوں کو بتائے کہ خدانخواستہ ایٹمی جنگ ہوئی تو اس کی تباہ کاریوں کے اثرات پاکستان اور بھارت تک محدود نہیں رہیں گے ۔دو کروڑ افراد تو پلک جھپکنے میں ہی لقمہ اجل بن جائینگے مگر اس کے بعد دنیا بھر میںتابکاری کے جو اثرات پھیلیں گے ،ان سے مزید 2ارب انسان فنا کے گھاٹ اتر جائینگے۔پاکستان کے کسی بھی کونے میں ایٹم بم پھینکا گیا تو اس کی تباہ کاریوں کا دائرہ بھارت کے کئی شہروں تک پھیل جائیگا۔ 1965ء کی جنگ سے اس مبینہ سرجیکل اسٹرائیک تک کسی بھی لڑائی میں ہم یہ طے نہیں کر پائے کہ کون جیتا اور کون ہارا۔سب اپنی اپنی فتح کا جشن مناتے اور پروپیگنڈے کے میدان میں ایک دوسرے کو دھول چٹاتے ہیں۔مگر اب اس آگ کا دائرہ پھیلا اور اگر نوبت ایٹمی جنگ تک آن پہنچی تو یوں سمجھئے کہ پھر یہ بتانے کیلئے کوئی زندہ نہیں بچے گا کہ حملہ کس نے کیا،غلطی کس کی تھی،کون جیتا اور کون ہارا؟سامعین ،حاضرین،ناظرین اور قارئین کیساتھ ہی ان جنگجوئوں کا بھی نام ونشان تک نہ ہوگا جن کا خیال ہے کہ تیسری عالمی جنگ سوشل میڈیا پر لڑی جائے گی۔
29ستمبر تک کسی کو کوئی کنفیوژن نہ تھی کہ سرجیکل اسٹرائیک کسے کہتے ہیں۔آکسفورڈ ،کیمبرج سمیت تمام معروف ڈکشنریوں میں اس فوجی اصطلاح کا مفہوم بہت واضح اور غیر مبہم تھا۔’’مخصوص ہدف پر حقیقی انداز میں کیا گیا فوجی نوعیت کا حملہ ـ‘‘مگر بھارتی مہم جوئی کے بعد سرحد کے دونوں طرف ٹی وی چینلز پر دفاعی ماہرین دن بھر اپنے اپنے انداز میں یہ بتانے اور سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ سرجیکل اسٹرائیک کسے کہتے ہیں۔ایک پاکستانی تجزیہ نگار تو وفور ِجذبات میں یہ بھی کہہ گئے کہ بھلا یہ بھی کوئی سرجیکل اسٹرائیک تھی،سرجیکل اسٹرائیک تو وہ تھی جو امریکہ نے اسامہ بن لادن کو مارنے کیلئے ایبٹ آباد میں کی۔ مختصر اور سادہ الفاظ میںبات کی جائے تو سرجیکل آپریشن یا سرجیکل اسٹرائیک انٹیلی جنس کی بنیاد پر دشمن کے خلاف کی جانے والی وہ خفیہ کارروائی ہے جس میں اپنا نقصان کم سے کم ہو اور دشمن کو انتہائی قلیل وقت میں کاری ضرب لگانے کے بعد آپ کی ٹیم واپس محفوظ ٹھکانوں تک پہنچ جائے۔ جب کوئی نادان دوسرے کے چہرے کا سرخ رنگ دیکھ کر اپنا منہ تھپڑوں سے لال کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہی کچھ ہوتا ہے جو بھارت کیساتھ ہوا۔میڈیا اور جنگی جنونیوں کے دبائو میں آکر کارروائی تو کر ڈالی مگر اب یہ کیسے بتائیں کہ خفت اٹھانا اور منہ کی کھانا پڑی۔ پاکستانی حکام کو بھی سرجیکل اسٹرائیک کا صریحاً انکار کرنے کے بجائے یہ حقیقت پسندانہ موقف اختیار کرنا چاہئے تھا کہ بھارتی دستے نے لائن آف کنٹرول عبور کرنیکی کوشش کی مگر جوابی کارروائی کے نتیجے میں دشمن لاشیں چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔اگر ایل او سی پر بھارتی فوجیوں کی لاشیں پڑی ہیں اور ایک فوجی کو گرفتار بھی کیا گیا ہے تو اس کا مطلب ہے یہ معمول کی بلا اشتعال فائرنگ نہیں تھی سرجیکل اسٹرائیک کی انتہائی بھونڈی اور ناکام کوشش تھی۔
دنیا بھر میں جہاں بھی سرجیکل اسٹرائیک ہوتی ہیں ۔ڈرون،جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹرز سے عکس بندی ہوتی ہے،کمانڈوز کی وردیوں کیساتھ کیمرے نصب ہوتے ہیں اور ان کارروائیوں کی لمحہ بہ لمحہ ریکارڈنگ ہوتی ہے ۔لیکن یہ کیسی سرجیکل اسٹرائیک تھی جس کا کوئی ثبوت ہے نا شہادت۔اگر اپنے فوجی مروانے کے بعد بھاگ جانے کو سرجیکل اسٹرائیک کہتے ہیں تو پھر دنیا بھر کے دفاعی ماہرین کو استثنائی موقف اختیار کرنا ہوگا اور بات کرنے سے پہلے وضاحت کرنا ہو گی کہ عالمی معیار کے مطابق ہونیوالی سرجیکل اسٹرائیک یا پھر بھارتی طرز کی سرجیکل اسٹرائیک۔ اگر بھارتی حکومت نے اپنے لوگوں کو مطمئن ہی کرنا تھا تو لیفٹیننٹ جنرل رنبیر سنگھ جیسے انتہائی نکمے اداکار کو ہیرو کا کردار دینے کی کیا ضرورت تھی،رنبیر کپور کی خدمات حاصل کر لی جاتیں یا پھر فینٹم سے شہرت پانے والے سیف علی خان کو ہیرو کا کردار دے کر سرجیکل اسٹرائیک کے نام سے ایک سپر ہٹ فلم بنا لی جاتی کیونکہ اس کا اسکرپٹ رائٹر ہی نہیں ہدایت کار بھی آپ کا اپنا ہوتا اور یوںمعاملہ اپنے ہاتھ سے نکلنے کا سوال ہی نہ پیدا ہوتا۔جنگی ہیروز اور فلمی ہیروز میں بہت فرق ہوتا ہے مودی جی۔


.
تازہ ترین