• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’تضحیک اللغات‘‘ اور جنرل ضیاء کا دور’’ضیاء الحقی‘‘

اپنے وزیر آبادی شاعر دوست زاہد مسعود کی ’’تضحیک اللغات‘‘ کے عنوان سے حروف ابجد کے تحت ہنسی، مذاق، شگفتگی ، سنجیدگی، سوچ اور مسکراہٹوں سے بھرپور کتاب شائع ہوئی ہے جس کے گرد پوش پر عطاء الحق قاسمی لکھتے ہیں کہ’’ہمارا مزاحیہ ادب آہستہ آہستہ بیوہ یا رنڈوا ہوتا چلا جارہا ہے۔ ہمارے مزاح نگار ایک ایک کرکے رخصت ہوگئے ہیں یا مزید نہیں لکھ رہے ہیں۔ ان کی جگہ چند نوجوان لے رہے ہیں۔ ان میں ایک اضافہ زاہد مسعود بھی ہے۔ خدا کرے ہمارا یہ مزاح نگار اس مشکل راستے پر ثابت قدمی سے چلتا رہے۔ اس راستے پر چلنا’’پل صراط‘‘ پر چلنے کے مترادف ہے کہ ذرا پائوں پھسلے تو انسان قصر مذلت میں جاگرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف اردو میں نہیں پوری دنیا میں مزاح نگار آٹے میں نمک کے برابر پائے جاتے ہیں سو میرے لئے لازم ہے کہ بہت ہی’’نمکین‘‘ زاہد مسعود کے کھلے با زئوں سے استقبال کروں کہ اس سے میری مثبت امید یں بلاوجواز ہرگز وابستہ نہیں ہیں‘‘۔میرے پڑھنے والوں کی دلچسپی کی بے شمار باتیں اور بہت سے دلچسپ حوالے ہیں جو اس کالم میں پیش کئے جاسکتے ہیں مگر چاہوں گا کہ وہ خود اس کتاب میں پڑھ کر لطف اندوز ہوں۔ میں تبرک کے طور پر مشتے نمونہ از خود خروارے پیش کرتا ہوں جو’’ض‘‘ کی پٹی کے تحت جنرل ضیاء الحق کے بارے میں ہے۔زاہد مسعود لکھتے ہیں کہ’’ضیاء الحق ہماری تاریخ کا ایک اہم کردار ہے۔ موصوف نے بطور کمانڈر انچیف قرآن پاک پر حلف اٹھا کر ذوالفقار علی بھٹو جیسے کائیاں شخص کو وفاداری کا یقین دلایا تھا اور اگلی رات ہی اس کا تخت الٹ کر اقتدار پر قابض ہوگیا تھا۔ ضیاء الحق بہت منسکر المزاج اور مرنجاں مرنج شخصیت تھے۔ ان دونوں خوبیوں کی افزائش کے لئے سرعام نمازیں پڑھتے اور سرمہ لگاتے۔ نوے دن کے بعد انتخابات کرانے کا قومی وعدہ کرکے انہوں نے گیارہ سال حکومت کی اور بالآخر طیارہ پھٹ جانے پر رزق آگ ہوئے۔ ان کے دور میں کچھ خوشامدی ادیبوں کالم نگاروں اور ایکٹروں کو قومی اعزازات سے نوازا گیا جبکہ سیاستدانوں کے لئے وہ ایک ڈرائونا خواب تھے۔ افغان وار کو انہوں نے امریکہ سے ڈالر ہتھیانے اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے نہایت ذہانت سے استعمال کیا جبکہ جنرل پرویز مشرف بعدازاں صرف سر پر بوتل رکھ کر ٹھمکا لگانے پر ہی قناعت کرتے پائے گئے۔جنرل ضیاء الحق کا دور’’ضیاء الحقی دور‘‘ کہلاتا ہے۔ موصوف برادری ازم اور خصوصاً جالندھر سے آئے ہوئے آرائیوں کو افضل مخلوق سمجھتے تھے اگر وہ زندہ رہتے تو پاکستان میں جالندھری آرائیوں اور مسلمانوں کے درمیان شدید جنگ کا خطرہ تھا‘‘




.
تازہ ترین