• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’ہم آپ سے پاگل پن کی حد تک محبت کرتے ہیں شاید اسی لئے آپ نے ہماری محبت کو سنجیدہ نہیں سمجھا ‘‘ سرینگر سے تعلق رکھنے والے بزنس مین مقبول ڈار کا یہ جملہ تیر کی طرح میرے دل میں پیوست ہو گیا۔ مقبول ڈار صاحب کشمیری شالوں کا بزنس کرتے ہیں ان کا بزنس بھارت اور مشرق وسطیٰ کے علاوہ یورپ میں بھی پھیلا ہوا ہے ۔1996ء میں وہ اپنے خاندان سمیت جرمنی منتقل ہو گئے لیکن اس سال جولائی میں برہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں ایک نئی تحریک کا آغاز ہوا تو حالات مقبول ڈار کو واپس سرینگر میں کھینچ لائے ۔ جولائی میں ہڑتال شروع ہوئی تو ڈار صاحب کا خیال تھا کہ چند دن کے بعد یہ ہڑتال ختم ہو جائیگی لیکن دو ہفتے تک ہڑتال جاری رہی تو ان کیلئے مشرق وسطیٰ اور یورپ میں اپنے آرڈرز پورے کرنا مشکل ہو گیا۔ انہوں نے بھارت کے مختلف شہروں سے کشمیری شالیں خرید کر یورپ میں کچھ آرڈرز پورے کئے ۔ انہیں یقین تھا کہ یہ ہڑتال تین ہفتے سے زیادہ نہیں چلے گی۔ جب تین ہفتے میں انہیں کم از کم تین کروڑ روپے کا نقصان ہو گیا تو وہ بھاگے بھاگے واپس کشمیر پہنچے ۔ دہلی سے سرینگر پہنچنے میں انہیں پانچ دن لگ گئے کیونکہ ہڑتالوں اور کرفیو کے باعث ذرائع آمدورفت بری طرح متاثر ہوئے تھے ۔مقبوضہ وادی کے لوگ گھروں سے صرف مظاہرے کرنے کیلئے یا جنازے اٹھانے کیلئے باہر نکلتے تھے ۔ مقبول ڈار نے سرینگر اور گردونواح میں موجود اپنے کاروبار سے منسلک ساتھیوں اور کاریگروں سے کہا کہ وہ کسی نہ کسی طرح گھروں میں بیٹھ کر کام کریں اور آرڈرز پورے کر دیں لیکن یہ ممکن نہ تھا ۔ پورا کشمیر بند ہو چکا تھا مقبوضہ ریاست کے چھوٹے اور بڑے تاجروں نے رضاکارانہ طور پر اپنی دکانیں اور مارکیٹیں بند کر دیں، ٹرانسپورٹرز نے ٹرانسپورٹ بند کر دی، تمام تعلیمی ادارے بند ہوگئے اور تمام حریت پسند رہنمائوں کو گرفتار کر لیا گیا۔مقبوضہ کشمیر میں صرف ہاسپیٹل کھلے ہوئے تھے مقبول ڈار بتا رہے تھے کہ ایک دن وہ اپنی بڑی بہن کے گھر میں موجود تھے کہ انکی بہن کے بارہ سالہ پوتے نے اپنی دادی کو بتایا کہ وہ آج ظہر کی نماز کے بعد لال چوک میں ایک مظاہرے میں جائے گا ۔ دادی نے پوتے سے کہا کہ تم اکیلے نہیں جائو گے میں بھی تمہارے ساتھ جائوں گی۔ دادی اور پوتے کی گفتگو سن کر مقبول ڈار نے اپنی بہن سے کہا کہ تم لوگ آگ سے کیوں کھیل رہے ہو ؟یہ سن کر ڈار صاحب کی بہن نے اپنے بھائی کو سمجھانے کی کوشش کی وہ نہ سمجھا تو بہن نے بھائی کو اپنے گھر سے نکال دیا اور کہا کہ پاکستان پر تم جیسے ہزاروں بھائی قربان کر دوں گی۔
مقبول ڈار نے پرنم آنکھوں اور لرزتے ہونٹوں سے بتایا کہ اسی شام وہ اپنے پرانے محلے میں ایک دوست کے گھر بیٹھا تھا کہ خبر ملی کہ انکی بہن پیلٹ گن کے فائر سے زخمی ہو گئی ہے ۔وہ بھاگے بھاگے ہاسپیٹل پہنچے تو پتہ چلا کہ انک عمر رسیدہ بہن کی آنکھیں ضائع ہو گئی ہیں ۔اس دن مقبول ڈار اپنی بہن سے لپٹ گیا اور اس سے معافی مانگ کرکہا کہ وہ واپس جرمنی نہیں جائے گا اور ساراکاروبار سمیٹ کر سرینگر میں اپنے آبائی مکان میں رہے گا۔ نومبر کے پہلے ہفتے میں مقبول ڈار کسی طرح سرینگر سے نکلے اور دہلی پہنچے۔ جرمن پاسپورٹ ہولڈر ہونے کی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑا اور وہ واپس برلن پہنچے۔ انہوں نے چار ماہ میں چھ کروڑ سے زیادہ مالیت کا نقصان برداشت کیا۔ تمام جمع پونجی اپنے داماد کے حوالے کی اور دبئی آ گئے جہاں ان کا ایک بزنس پارٹنر مقبوضہ کشمیر کی ہڑتال کے باعث ہونے والے نقصان سے سخت متاثر ہوا تھا۔ مقبول ڈار اپنے اس پارٹنر کو اس کا کچھ بقایا دینے آئے تھے اور ایک ہوٹل کی لابی میں مجھے دیکھ کرپہلے ہاتھ ہلایا اور پھر ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ لگا کر مجھ سے لپٹ گئے ۔
ہوٹل کی لابی میں موجود سیکورٹی کے لوگ بھاگ کر آئے اور اس دیوانے کشمیری کو مجھ سے علیحدہ کیا لیکن میں سمجھ چکا تھا کہ اس دیوانگی میں میرے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے لہٰذا میں اس دیوانے سے باتیں کرنے لگا۔ جب انہوں نے اپنا تعارف کرانے کے بعد کچھ مشترکہ دوستوں کے نام لئے تو میں ان کے ساتھ کافی شاپ میں بیٹھ گیا۔ کافی دیر گفتگو کے بعد مقبول ڈار نے پوچھا کہ کیا آپ مجھے آج کل کی تاریخ میں کوئی ایسی مثال دے سکتے ہیں جہاں لاکھوں کروڑوں لوگوں نے آزادی کیلئے پورے چار ماہ تک اپنا کاروبار اور تعلیم بند کر دی ہو؟ ہزاروں لڑکوں اور لڑکیوں نے اپنا تعلیمی سال قربان کر دیا ہو ؟ کیا آپ یہ مانیں گے کہ کشمیریوں نے پاکستان کے ساتھ پاکستانیوں سے زیادہ محبت کی ہے ؟ میں ان سوالات کے جواب میں خاموش تھا۔ مقبول ڈار نے پوچھا کہ میں آپ کے کالم پڑھتا ہوں آپ کافی مطالعہ کرتے ہیں مجھے بتائیے کہ کس تحریک آزادی میں عورتوں نے اپنے بیٹوں کے ماتھے چوم کر انہیں کسی مسلح فوج کا پتھروں سے مقابلہ کرنے کیلئے میدان میں اتارا اور جب بیٹے شہید ہو گئے تو انکی مائیں گھر کے برتنوں کو ہتھیار بنا کر فوج کے مقابلے پر آ گئیں ؟ میرے لب خاموش تھے لیکن میری آنکھوں میں جھلملاتے آنسو میرا جواب بن گئے اور مقبول ڈار میرا ہاتھ تھام کر اسے چومنے لگے ۔ پھر بولے میں کل واپس جا رہا ہوں ۔ معلوم نہیں سرینگر پہنچوں گا یا نہیں لیکن آپ پاکستان کے لوگوں کو یہ ضرور بتا دیں کہ ایک مقبول ڈار نے نہیں ہزاروں کشمیری تاجروں نے پاکستان کیلئے اپنا کاروبار تباہ کرکے چار ماہ کی ہڑتال کو کامیاب بنایا ۔ہزاروں طلبا و طالبات نے اپنا تعلیمی کیریئر ختم کر دیا۔
بھارت کی حکمران جماعت اپنی کٹھ پتلی محبوبہ مفتی کے ذریعہ ہمیں سب کچھ دینے کیلئے تیار تھی لیکن ہم نے بھارتی حکمرانوں کی ہر پیشکش مسترد کر دی ہمارے دل ودماغ پر تو پاکستان سے محبت سوار ہے ہم پاگل ہو چکے ہیں اس پاگل پن پر ہمیں فخر ہے لیکن کبھی کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ ہمارے پاگل پن سے گھبرانے لگے ہو۔ پاکستان کے حکمران کشمیر کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن ان کے لب ولہجے میں کشمیریوں کیلئے وہ درد اور تکلیف نظر نہیں آتی جو عام پاکستانیوں سے گفتگو میں محسوس ہوتی ہے۔ میں نے مقبول ڈار سے کہا کہ آپ اطمینان رکھیں ہر سچا پاکستانی آپ کے ساتھ کھڑا ہے ۔ ڈار صاحب کو ایئرپورٹ روانہ ہونا تھا سینے پر ہاتھ مار کر کہنے لگے کہ اگر سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، یاسین ملک اور دیگر کشمیری قائدین ایک نکتے پر متحد ہو کر دکھا سکتے ہیں اور پاکستانیوں سے زیادہ پاکستانیت دکھا سکتے ہیں تو آپ کے سیاست دان صرف کشمیر پر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ہمیں ایک پیغام محبت ہی دیدیں ہم اسی پر بہل جائیں گے۔




.
تازہ ترین