• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سب سے پہلے ’’روٹی کپڑا مکان‘‘ فیم بلکہ ڈی فیم پیپلز پارٹی کی طرف جو لاہور میں اپنے 49ویں یوم تاسیس پر ڈوبتے بدن کے ہاتھ جیسی دکھائی دی۔ سو فیصد ابن انشا کے اس مصرع کی تصویر کہ ’’جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا‘‘۔ پیپلز پارٹی پاکستانیوں کے 49 سال کھا گئی لیکن اب بھی اس کا پیٹ نہیں بھرا۔ 49 سال پہلے اس پارٹی نے اک خوش رنگ جال بجھایا، اک پرکشش نعرہ لگایا ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘ اور حال یہ کہ 49 ویں یوم تاسیس پر جونہی ’’لنگر‘‘ کھلا، ہر کوئی نعرے کے پہلے حصہ یعنی ’’روٹی‘‘ پر بھوکے بندر کی طرح ٹوٹ پڑا۔ صدیوں کی بھوک نے کھایا کم اور گرایا زیادہ کہ یہی اس پارٹی کا اصل خلاصہ اور تعارف ہے کہ یہ کھاتے کم اور گراتے زیادہ ہیں اس لیے کپڑا مکان تو چھوڑیں صرف روٹی بھی دان نہ کرسکے لیکن دام پھر بھی تیار ہے۔ انہیں اب بھی امید یا شاید یقین ہے کہ انہیں اپنے حصہ کے اتنے بیوقوف ضرور مل جائیں گے کہ یہ ایک بار پھر اقتدار میں جمہوری نقب لگا کر حکومت ہتھیا سکیں لیکن شاید موجودہ نسل ان گزشتہ نسلوں سے زیادہ سمجھدار ہے۔ ’’جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘‘۔’’روٹی کپڑا مکان‘‘ کے پرفریب ’’ڈبل شاہانہ‘‘ نعرے کے علاوہ اس پارٹی کا اک منشور بھی ہوا کرتا تھا جو لاتعداد جیالوں کا وسیع و عریض کفن ثابت ہوا۔ آیئے میں آپ کو یہ منشور یاد دلاتا ہوں جس نے ٹین ایج میں مجھے بھی مخمور و مسحور کردیا اور میں ہوش میں آنے کے باوجود مدتوں اس کے ہینگ اوور اور سحر کا شکار رہا۔ منشور تھا۔’’اسلام ہمارا دین‘‘’’سوشلزم ہماری معیشت‘‘’’طاقت کا سرچشمہ عوام‘‘پھر جب عملی طور پر پے در پے ان سے واسطہ پڑا تو ہوا یہ کہ ..... ’’مجھے راستے میں خبر ملی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے‘‘ یعنی ’’کرپشن ہمارا مذہب‘‘’’کمیشن ہماری معیشت‘‘’’دولت کا سرچشمہ عوام‘‘بعدازاں اک اور راز افشا ہواکہ’’ جمہوریت تو عوام سے بہترین انتقام ہے‘‘۔آہستہ آہستہ سمجھ آئی کہ بھائی اپنی پیپلز پارٹی نظریاتی نہیں ڈالریاتی جماعت ہے۔ پسماندہ معاشروں میں سوائے ’’پاور پلے‘‘ کے اور کچھ نہیں ہوتا اور پاور پلے بھی پرانی قسم کا جس کی پیکنگ مختلف ضرور ہوتی ہے اور کچھ نہیں اور ’’پاورپلے‘‘ میں نہ کوئی شہید ہوتا ہے نہ غازی۔ اس کھیل میں تو صرف تخت ہوتا ہے یا تختہ دار، ہولی ہوتی ہے یا گولی لیکن رسی جل گئی بل نہیں گیا ورنہ یوم تاسیس پر کوئی یہ نہ کہتا کہ’’پیپلز پارٹی نے لاہور کو بلاول کے انقلاب کیلئے چن لیا ہے‘‘۔کون سی پیپلز پارٹی؟کس زمانے کا لاہور؟کہاں کابلاول؟کیسا انقلاب؟کہ جو 49 برس میں رتی برابر تبدیلی نہ لاسکے وہ آئندہ کون سا انقلاب لاسکیں گےکہ انقلابوں کے تو زمانے ہی لد گئے۔ دنیائے سیاست کا تو نصاب ہی تبدیل ہو چکا لیکن یہ یا تو بے خبر ہیں یا بے وقوف بنا رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے پیپلز پارٹی کو اپنے بنیادی نظریہ کی طرف لوٹنا ہوگا تو میرا سوال یہ کہ ان کا ’’بنیادی نظریہ‘‘ بھی بھونڈے ترین تضاد کے علاوہ تھا کیا جو 49 سال پہلے مجھ جیسے لونڈے لپاٹے کو بھا گیا۔ عقل ہوتی تو تب ہی سوال اٹھاتے کہ اگر اسلام تمہارا دین ہے تو پھر سوشلزم تمہاری معیشت کیسے ہو سکتی ہے کیونکہ دین کی تو اپنی معیشت ہے جس کا اکلوتا ٹارگٹ یہ ہے کہ انسانی معاشرہ میں ’’دولت کی روانی اتنی ہی منصفانہ ہونی چاہئے جتنی انسانی جسم میں خون کی روانی ہوتی ہے جب وہ سر سے پائوں تک منصفانہ انداز میں گردش کرتا ہے۔ ایسا نہ ہو تو بلڈپریشر سارا نظام تہس نہس کر دیتا ہے۔ اسی اصول کا اطلاق ’’سیاسی طاقت‘‘ پر بھی ہوتا ہے جو بدقسمتی سے نہ سرمایہ دارانہ نظام میں ممکن ہے نہ سوشلزم میں ممکن تھا۔ اسلامی معیشت کا مرکزی خیال بہت سادہ ہے یعنی جب کچھ لوگوں کے پاس ضرورتوں سے بہت زیادہ مال یعنی ’’پاناما‘‘ اکٹھاہو جائے تو جان لو بے شمار لوگ بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہوگئے ہیں (مفہوم)حضرت عمر بن خطابؓ نے دیکھا دکاندار نے کھجوروں کے تین ڈھیر لگا رکھے ہیں۔ پوچھا ’’یہ کیا ہے؟‘‘ دکاندار نے اشاروں کے ساتھ واضح کیا کہ .....’’یہ کھجوریں درجہ اول، دوسری ڈھیری درجہ دوم اور تیسری درجہ سوم کی کھجوروں پر مشتمل ہے‘‘ امیر المومنین فاروق اعظم نے تینوں ڈھیریوں کو آپس میں ملاتے ہوئے سختی سے فرمایا ’’میری موجودگی میں تمہیں جرات کیسے ہوئی کہ تم امت کو تین طبقوں میں تقسیم کرسکو‘‘۔سسٹمز بدلتے ہوئے زمانوں پر چھوڑتے ہوئے اہداف کے حصول کویقینی بنانا ہی ازلی، ابدی، آفاقی دانش ہے اور یہ اسلام کو اپنا دین بتا کر سوشلزم کو اپنی معیشت کہتے رہے تو انجام بھی سامنے ہے۔رہ گئی ن لیگ تو ایک طرف قانون، دوسری طرف نون جس کے دامن میں آج اس کے سوا کیا ہے کہ (چند اخباری سرخیاں)’’وزیراعظم کے جواب اور تقاریر میں تضاد ہے‘‘ سپریم کورٹ’’وزیراعظم کے بیانات میں تضاد۔ سب باتیں میاں شریف کے بارے میں ہیں۔ وزیراعظم اور بچوں کا کیا کردار ہے؟‘‘ پاناما لیکس پر سپریم کورٹ کے سنجیدہ سوال’’2006 سے پہلے آف شورکمپنی ثابت ہوئی تو بوجھ شریف فیملی پر ہوگا‘‘ عدالت "SC QUESTIONʼS MONEY TRAIL OF LONDON FLATS."اللہ پاک عوام کو دونوں سے نجات عطا فرمائے۔ آمین

.
تازہ ترین