• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرا احساس ہے کہ عنوان دیکھ کر بہت سارے قارئین اِس کالم کو پڑھنے سے گریز کریں گے، کیونکہ گزشتہ تین برسوں اور بالخصوص گزرے ہوئے دس پندرہ مہینوں میں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر حکومت اور فوج کے مابین تعلقات جس تکرار سے زیرِ بحث آئے ہیں، اِس نے ذہنوں میں ایک اُکتاہٹ اور ایک خلجان پیدا کر دیا ہے۔ عمران خاں اور شیخ رشید امپائر کی اُنگلی اُٹھنے کا بار بار یقین دلاتے اور جنرل راحیل شریف کو اقتدار سنبھالنے کی کھلم کھلا دعوت دیتے رہے۔ وہ جون ایلیا کے اِس شعر کی تصویر بنے ہوئے تھے؎
ہم سنے اور سنائے جاتے تھے
رات بھر کی کہانیاں تھے ہم
بلاشبہ بعض موقعوں پر سول ملٹری تعلقات میں دراڑیں پڑتی ہوئی محسوس ہوئیں، مگر سیاسی اور عسکری قیادت نے خاصی حد تک ذہنی پختگی کا ثبوت دیا اور بالآخر فوجی کمان کی تبدیلی کے باوقار اور حیات افروز مناظر طلوع ہوئے۔ صدرِ مملکت اور وزیراعظم نے رخصت ہونے والے جرنیلوں کو جس عزت و احترام اور گہری اپنائیت کے ساتھ رخصت کیا، اِس کی نظیر ہماری عسکری تاریخ میں نہیں ملتی۔ جنرل راحیل شریف نے قائدانہ صلاحیت اور عسکری روایات کا ایک نہایت بلند معیار قائم کیا ہے۔ اُن کے بروقت جرأت مندانہ فیصلوں نے دہشت گردی کے عفریت کو بڑی حد تک بے دم کر دیا ہے، کراچی کی بدامنی پر قابو پا لیا ہے اور اقتصادی راہداری کی تعمیر کے خواب کو حقیقت کا روپ بخش دیا ہے۔ اُن کے عہد میں چھوٹے سائز کے ایٹم بم بنائے گئے جس سے ہمارا دفاع ناقابلِ تسخیر بن گیا ہے اور بھارت پر پوری طرح واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان کے خلاف کسی قسم کی مہم جوئی اِسے بہت مہنگی پڑے گی۔ جنرل راحیل شریف نے اپنی الوداعی تقریب میں بھارت کی قیادت سے مخاطب ہوتے یہ ایقان افروز پیغام دیا ہے کہ ہمارے تحمل و برداشت کی پالیسی کو کمزوری نہ سمجھا جائے، کیونکہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت کر تاریخ کا دھارا موڑ دیا ہے۔
نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاک فوج کی کمان سنبھالتے ہی اپنے ہم وطنوں کو یقین دلایا ہے کہ ہم پاکستان کے دفاع اور قیامِ امن کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے اور کنٹرول لائن پر صورتِ حال جلد بہتر ہو جائے گی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ میرے کندھوں پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے اور دعا کیجیے کہ میں اِسے نہایت جاں فشانی اور دیانت داری سے ادا کر سکوں۔ دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا کہ خطے میں امن تنازع کشمیر کے پُرامن حل کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا اور اِس ضمن میں پوری عالمی برادری کو ایک فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔ انہوں نے میڈیا سے کہا کہ مایوسی پھیلانے کے بجائے مثبت طرزِعمل اختیار کیا جائے اور میں اِسے اپنے ساتھ لے کر چلوں گا۔ جنرل قمر باجوہ کے ساتھ کام کرنے والے فوجی احباب یہ خوشخبری دیتے ہیں کہ وہ مزاجاً سیاست میں فوجی مداخلت کو ناپسند کرتے ہیں۔
میں 12نومبر کی شام کراچی گیا اور اگلی رات گیارہ بجے میجر (ر) عبدالواحد غوری کی وساطت سے ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر سے اُن کی اقامت گاہ پر ملاقات ہوئی جو دو گھنٹے جاری رہی۔ اِس ملاقات میں جناب نصیر احمد سلیمی کے علاوہ عزیزان افنان اور ایقان بھی میرے ہمرا ہ تھے کہ انہیں بھی قوم کے ایک عظیم اور بہادر محسن کی زیارت کا شرف حاصل ہو جائے۔ انہوں نے کسی لاگ لپٹ کے بغیر کراچی میں ہونے والے آپریشن کی تفصیلات بیان کیں، اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تخمینہ پیش کیا اور بتایا کہ میری اِس عہدے پر تعیناتی چھ ہفتے پہلے کر دی گئی تھی جس کی بدولت مجھے کراچی کی صورتِ حال کا تفصیلی جائزہ لینے کا موقع ملا۔ ہم چار پانچ افسر سادہ کپڑوں میں اِن علاقوں میں نکل جاتے جو دہشت گردی اور تخریب کاری کے مرکز بنے ہوئے تھے۔ ہم نے سہراب گوٹھ، لیاری اور نائن زیرو کا سروے کیا اور کئی بار ایم کیو ایم کے مرکز سے متصل مسجد میں نماز ادا کی۔ اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد عوام سے تعاون حاصل کرنے کے لیے اخبارات میں اشتہارات بھی دیے اور ایف ایم ریڈیو پر اعلانات بھی کیے۔ ہمیں سب سے زیادہ اور صحیح معلومات عام لوگوں سے حاصل ہوئیں، آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردوں اور مافیاؤں کی دہشت بہت کم ہو چکی تھی۔ ایک روز مجھے ایک خاتون کا فون آیا جو کہہ رہی تھی کہ میرا خاوند ٹارگٹ کلر ہے اور وہ سو سے زائد لوگ قتل کر چکا ہے۔ میں نے اِس پر جرح کی اور وہ اپنی بات پر اصرار کرتی رہی۔ اُس نے کہا میں اپنا پتہ آپ کو بتا رہی ہوں اور میرا فون نمبر بھی آپ کے پاس آگیا ہے، آپ اِس کی بنیاد پر تحقیقات کر سکتے ہیں۔ ہم نے دوسرے دن رینجرز کی چند خواتین اِس پتے پر بھیجیں جو اِس خاتون سے ملیں اور پوری کہانی معلوم کی۔ اِس بہادر خاتون نے انکشاف کیا کہ شادی کے پندرہ بیس دن بعد مجھے معلوم ہو گیا تھا میرا خاوند ٹارگٹ کلر ہے۔ میں نے یہ بات اپنے والدین کو بتائی، انہوں نے کہا کہ تمہارے بہن بھائی ابھی بہت چھوٹے ہیں، اگر ہم نے تمہارے شوہر کے بارے میں پولیس کو مطلع کیا، تو وہ ہمارا دشمن بن جائے گا۔ تم اِس کے ساتھ نباہ کرتی رہو اور مناسب وقت آنے پر کوئی بڑا قدم اُٹھایا جا سکے گا۔ رینجرز آپریشن کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ وہ مناسب وقت آگیا ہے۔ ہم نے اِس کی فراہم کردہ اطلاعات پر اِس کے خاوند کے خلاف آپریشن کیا اور اِس نے گرفتاری کے بعد اپنے تمام جرائم کا اعتراف کر لیا۔
میجر جنرل بلال اکبر نے وضاحت سے بیان کیا کہ ہمارا آپریشن جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ہے اور کوئی بھی سیاسی جماعت ہمارا ہدف نہیں۔ نائن زیرو کے خلاف آپریشن سے پہلے ایم کیو ایم کے قائدین کی ہمارے ساتھ ملاقاتیں ہوتی رہیں جن میں ڈاکٹر فاروق ستار بھی شامل تھے اور ہم اُن سے قاتلوں، بھتہ خوروں اور اغوا کاروں کو رینجرز فورس کے حوالے کرنے کا بار بار کہتے رہے۔ اُن کی پس وپیش پر ہم نے مستند معلومات پر اِس علاقے میں آپریشن کیا اور بڑے بڑے مگرمچھ جال میں پھنس گئے۔ نبیل گبول کے استعفیٰ دینے اور ضمنی انتخاب کے معاملے میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں۔ اُس نے اِس خوف سے خود ہی استعفیٰ دیاکہ اِس کی سیاسی حمایت ختم ہو چکی تھی۔اِسی طرح جنرل پرویز مشرف اور ایم کیو ایم کی قیادت کے مابین مذاکرات سے بھی ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ ہم سیاسی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرتے اور ہماری سب سے زیادہ اور بنیادی دلچسپی شہر کا امن بحال کرنے اور شہریوں کو تحفظ کا احساس دلانے سے ہے۔ ہمیں رینجرز کو انسدادِ دہشت گردی آرڈیننس کے تحت جرائم پیشہ لوگوں کو گرفتار کرنے کا اختیار ملا تھا۔ اِن اختیارات کے تحت ہم نے پولیس اور سول سوسائٹی کے تعاون سے نہایت کامیاب آپریشن کیے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی شہر میں سات ہزار تین سو دن سے زیادہ خون خرابہ ہوتا رہا اور اگر اوسطاً ایک روز میں دس لاشیں گرتی رہی ہیں، تو بہتر ہزار سے زائد شہری لقمہ ٔ اجل بنے ہیں۔ اب وہ سلسلہ رک گیا ہے اور دہشت گردی کی اِکا دکا واردات ہو رہی ہے۔ ہماری کوششوں سے اب پولیس کسی قدر محفوظ ہو گئی ہے، تاہم اِسے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے اِسے سیاسی آلائشوں سے پاک صاف کرنا ہو گا۔

.
تازہ ترین