• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹی ایس ایلیٹ کی ایک نظم کے چند مصرعے یاد آتے ہیں۔ اردو میں انہیں کچھ اس طرح بیان کروں گا کہ:
وہ زندگی کہاں گئی جو ہم نے جینے میں گزار دی
وہ دانائی یا خرد کہاں ہے جو ہم نے علم میں ضائع کر دی
اور وہ علم کہاں ہے جو معلومات میں کھو گیا
اب پتہ نہیں کہ کوئی رشتہ جڑتا ہے یا نہیں لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ وہ تمام وقت کہاں گیا جو ہم نے اپنی فوج کی کمان میں تبدیلی کے ہونے، نہ ہونے اور کب ہونے کی پہیلی بوجھنے میں گزار دیا۔ بہ ظاہر سادہ سوالوں کی ڈوری تھام کر ہم کیسے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے۔ ایک حساب تو اس وقت کا ہے جو نیوز چینلز کی خبروںاور ٹاک شوز میں صرف ہوا۔ اس کے علاوہ نجی محفلوں میں مسلسل گفتگو ہوتی رہی۔ جنرل راحیل شریف کی جانب سے یہ بیان تو کتنے عرصے پہلے جاری ہو چکا تھا کہ وہ اپنے وقت پر ریٹائر ہو جائیں گے اور ایک باوقار اور اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور اصولوں سے واقف کسی افسر سے یہی توقع کی جا سکتی ہے۔ البتہ فوج اور سول انتظامیہ کے درمیان تعلقات کی نوعیت کچھ ایسی رہی ہے کہ افراد اور اداروں کی لغزشوں کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے پھر ملک کے موجودہ داخلی اور خارجی حالات بھی غیر معمولی اقدامات کا جواز پیدا کر سکتے ہیں۔ سو میڈیا کے دانشور بھی اور ٹیلی وژن کے سامنے بیٹھ کر خود کو شعلہ بیانی کے سرکس میں شامل سمجھنے والے افراد بھی اس کھیل میں مصروف رہے کہ اب کیا ہو گا اور کون کیا کرے گا۔ جیسا کہ میں نے کہا، نہ جانے کتنا وقت اس نوعیت کی گفتگو میں کٹ گیا۔ ایک محاورہ بیکار بیٹھے کسی شخص کیلئے یہ ہے کہ ٹائم پاس کر رہے ہیں۔ یہاں انتہائی اہم اور مہنگا وقت کہ جو نشریات کے دورانیے پر محیط ہوتا ہے، اگر اور مگر اور شاید اور یقینی کی پتے بازی میں خرچ ہوتا رہتا ہے۔ کہی ہوئی باتوں کی جگالی کی جاتی رہتی ہے۔ خبریں بھی ٹاک شوز بن جاتی ہیں۔ یہی نہیں، دفتروں میں اور سنجیدہ خاندانی مذاکرات کے درمیان بھی سیاسی گفتگو شروع ہو جاتی ہے۔ جو باتیں ٹاک شوز میں نہیں کہی جا سکتیں اور جو اخبارات میں شائع نہیں کی جاتیں ان کا ذکر ایسی ملاقاتوں میں ہوتا ہے۔ کئی افراد انتہائی باخبر ذرائع سے ایسی خبر لاتے ہیں جس کی صداقت پر انہیں یقین ہوتا ہے۔ صرف ایک مثال میں یہ دوں کہ اکتوبر کے آغاز میں کراچی کی ایک سفارتی پارٹی میں ایک بہت بااثر شخص نے کہ جس کی ایوان بالا تک رسائی کا مجھے علم ہے، میرے پاس آ کر میرے کان میں یہ کہا کہ آج ایک سال کی ایکسٹینشن کا فیصلہ ہو گیا۔ اسی قسم کے اشارے اور اکثر متضاد اشارے ٹاک شوز کی نوک جھونک میں بھی شامل رہے۔میں یہ مانتا ہوں کہ قومی سلامتی کے بارے میں اور ایک جمہوری نظام میں فوج کے کردار پر گفتگو جائز بھی ہے اور ضروری بھی…لیکن میڈیا کی آزادی کا جو تاثّر ٹاک شوز کی بے لگام گفتگو سے پیدا ہوتا ہے وہ بڑی حد تک ایک فریب ہے۔ کھل کر بات کرنا تو الگ ہے، ہم تو کھل کر سوچنے سے بھی گھبراتے ہیں۔ مذہبی انتہاپسندی اور عدم برداشت نے ہمارے اظہار کو محدود کر دیا ہے۔ آپ کہیں گے کہ یہاں میں اپنی ہی بات کی تردید کر رہا ہوں یعنی ایک طرف تو یہ شکایت ہے کہ جیسے ہم سب سیاست اور حالات حاضرہ کے بارے میں ہر وقت بولتے رہتے ہیں اور اپنا وقت ضائع کرتے ہیں اور دوسری طرف یہ تبصرہ ہے کہ بات کرنا بہت مشکل ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اس تضاد کی حقیقت کو سمجھنا چاہئے۔ بیشتر ٹاک شوز اس فکری افراتفری کی عکاسی کرتے ہیں جس سے ہم نے صلح کر لی ہے۔ یہ بھی شاید ایک قسم کا نشہ ہے۔ میڈیا سے خفا ہو جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے لیکن میری شکایت یہ ہے کہ ایک ایسی فضا قائم ہو چکی ہے کہ جس میں پریشان خیالی نے سنجیدہ غور و فکر کو پچھاڑ دیا ہے۔ جسے ہم پڑھا لکھا طبقہ کہیں اس کی موجودگی کا احساس کم ہوتا جا رہا ہے۔ میں ایسے بہت سے لوگوں سے ملتا رہتا ہوں جو سمجھدار اور خوش ذوق ہیں۔ کئی نوجوان تعلیمی اداروں کے پست معیار کے باوجود اپنی صلاحیت اور لگن سے حیران کر دیتے ہیں جسے ہم سول سوسائٹی کہتے ہیں اس کی وسعتوں میں ادھر ادھر بامقصد اور بے لوث کاوشوں کی مشعلیں روشن ہیں۔ دل کہتا ہے کہ امن، سماجی انصاف اور روشن خیال ترقی کے بکھرے ہوئے خواہش مند اگر یکجا ہو جائیں تو تبدیلی کی کوئی نئی تحریک پیدا کی جا سکتی ہے لیکن ایسا ہو کیوں نہیں رہا؟ جتنا وقت گزرتا جا رہا ہے اور جس طرح ہم سیاست بلکہ جانب دارانہ سیاست کو اپنی سوچ پر حاوی ہونے دے رہے ہیں اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔ اس صورتحال کے دو پہلو مجھے اہم لگتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ علمی اور تحقیقی سطح پر کوئی بڑا کام ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے دکھوں کو سمجھنے اور ان کی تشخیص کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ دوسرا پہلو یہ کہ بہت سے پڑھے لکھے افراد جو معاشرے میں کچھ اثر بھی رکھتے ہیں، قومی معاملات سے لاتعلق ہوتے جا رہے ہیں، ان کی نظر میں سیاست کا مطلب محض یہ ہے کہ آپ کس جماعت یا رہنما کی حمایت کرتے ہیں۔
اب آپ یہ دیکھیں کہ ہمارا ملک کتنے گمبھیر مسائل میں گھرا ہواہے۔ ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کی کامیابیوں کا آپ کیسا ہی تجزیہ کیوں نہ کریں، مذہبی انتہاپسندی اور عدم برداشت کے ضمن میں جس متبادل بیانیے کی ہمیں ضرورت ہے وہ کہاں ہے۔ جن خیالات نے ہم پر حکومت کی ہے وہ اپنی افادیت اور اپنا تاریخی جواز کھو چکے ہیں۔ نیا سفر ہے پرانے چراغ گل کر دو، والا مرحلہ ہے اور اگر یہ وہ مسائل ہیں جو صرف مفکروں اور فیصلہ سازوں کے دائرۂ اختیار میں ہیں تو ہم سب کم از کم اپنے آس پاس کی دنیا کو آنکھیں کھول کر دیکھ تو سکتے ہیں۔ پاکستان میں سوشل سیکٹر کی بدحالی کا عالم یہ ہے کہ تعلیم کا شعبہ ہو یا صحت کا، انصاف کی فراہمی کا معیار ہو یا معاشرے میں عورتوں کے مقام کا تعین ہو، ان موضوعات پر کئے جانے والے عالمی سروے ہمیں یاد دلاتے رہتے ہیں کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے۔
اس پسماندگی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم بہت سے مشکل فیصلے کرنے سے گھبراتے ہیں اور ان فیصلوں کیلئے عوامی دبائو بھی موجود نہیں ہے۔ اگر کوئی دبائو ہے تو انتہاپسندوں کی جانب سے اور یوں، اس کالم کے اختتام پر مجھے انگریزی کے ایک اور عظیم شاعر لیٹیس کے دو مصرعے یاد آ رہے ہیں کہ جو کچھ یوں ہیں کہ جو سب سے اچھے ہیں ان کے دل میں کوئی تڑپ نہیں ہے اور جو برے ہیں وہ جوش اور جذبے کی انتہائی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔

.
تازہ ترین