• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شیو سینا ایشیا کے دل کیلئے خطرہ
سرتاج عزیز کو بھارت میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت سے روکنے کے لئے شیو سینا کے مظاہرے، اب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ بھارتی انتہا پسند تنظیموں کو بھارتی حکومت کی سرپرستی حاصل ہے، اور یہی وجہ ہے کہ بھارتی سینا کو وہ اہمیت حاصل نہیں جو شیو سینا کو دی جاتی ہے، اسلئے جب بھی بھارت کی سینا کا ذکر آئے تو اس سے شیو سینا مراد لی جائے، یہ شیو کی سینا، شیوجی مہاراج کی ساکھ بگاڑنے کا کام سنبھالے ہوئے ہے، ہندو مت رکھنے والوں کو اس موذی گروہ کا کچھ بندوبست کرنا چاہئے، سرتاج عزیز آنٹی سشما سے کہیں کہ وہ اس سے کہیں کہ ’’کوئی پتھر تو نہ مارے…‘‘ سرتاج کو بھارت آنے دے، بھارت میں انتہا پسندوں نے پاکستان مخالف حرکتیں اتنی زیادہ کر دی ہیں کہ اب پاکستان کو ان کے وجود کا احساس بھی نہیں رہا، ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں سرتاج عزیز آغازِ گفتگو ہی ایشیائی اقوام کو مخاطب کرتے ہوئے یوں کریں کہ خواتین و حضرات ایشیا کے دل کو شیو سینا سے شدید خطرہ لاحق ہے اگر یہ کلاٹ سرجری کر کے دور نہ کیا گیا تو کانفرنس کو ہارٹ اٹیک ہو سکتا ہے، خدا جانے سشما جی اس کانفرنس میں ہوں گی یا نہیں ان کے اور شیو سینا کے سرتاج مخالف مظاہروں سے ہم نے ایک شعر بنایا ہے آپ بھی ملاحظہ کر لیں؎
گو پیٹ میں گردے نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی مودی و سرتاج مرے آگے
بہرحال یہ انتہا پسند بھارتی کانٹے تو ہوں گے کیونکہ اب بھارت کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں، بہرحال ان مورکھوں سے کہے دیتے ہیں کہ اوئے تساڈی پروا نہیں سانوں!
لے لواں میں بندے کناں دے ویچ کے
قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے کہا ہے: کہ وہ تحریک انصاف کے غیر حاضر ارکان کی تنخواہیں روکنے کیلئے اسمبلی سے قرار داد منظور کرائیں گے، عوام کے نمائندے اگر اسمبلی میں حاضر نہیں ہونگے تو عوام سارے کے سارے 5نمبر ڈال کر بھی پاس نہیں ہوں گے، البتہ ماسٹر حضرات سارے کے سارے ’’پُگ‘‘ جائینگے، جمہوریت کی ہم بہت قدر کرتے ہیں اسلئے ہم نے اس کو کمائو انڈسٹری بنا دیا ہے، آج جو ہم میں ہے اور ہم سا ہے کل وہ اشرافیہ میں ہو گا یہ جمہوریت انڈسٹری کا کمال، اس لئے اب عوام کوشش کریں کہ اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر بنانے کا شوق ترک کر کے ان میں ایک آدھ کو سیاست میں داخل کر دیں، سیاسی ورکر بنے گا پھر ڈنڈے کھائے گا، جیل جائے گا، اور اس کی پارٹی سے والہانہ محبت عقیدت کو دیکھ کر کوئی بھی پارٹی اس کو ٹکٹ دیدے گی پھر فنڈز ہوں گے اور وارے نیارے۔ ایاز صادق کے بارے میںہمیں خفیہ معلومات ملی ہیں کہ وہ درپردہ خان صاحب کے عشق میں مبتلا ہیں اور چاہتے ہیں، کہ سنجی ہووے اسمبلی تے وچ عمران خان پھرے، اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ پچھلے دنوں انہوں نے یہ تک کہہ دیا کہ مجھے اسپیکر کہنے کے بجائے ایاز کہہ کر پکار لیں اور (خود محمود غزنوی بن جائیں) لیکن اسمبلی ضرور آئیں، اب وہ اس عشق میں کافی بیباک ہو کر ایک قرارداد لا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے غیر حاضر ارکان کی تنخواہیں بند کر دی جائیں لیکن ان کو یہ معلوم نہیں کہ خان صاحب اور ان کے سیاسی لواحقین کے اور بھی بہت عشاق ہیں جو بہت پیسے والے ہیں، ایاز صادق فقیر منش سردار ہیں، لمبے چوڑے کھاتے نہیں رکھتے، ورنہ وہ بھی ایک دیہاتی دوشیزہ کی طرح کہتے؎
جے یار مُل وکدا تے میں لے لیندی
بندے کناں دے ویچ کے
خان صاحب سے گزارش ہے کہ آپ کو اپنے ووٹروں کا واسطہ اپنے ارکان اسمبلی کو ساتھ لیکر اسمبلی میں اب آ جائیں کہ اب انکے پاس یہی ایک راستہ بچا ہے۔
٭٭٭٭
سیاسی غیبت کے چسکے
زلف تراش کی دکان میں دیوار پر یہ کتبہ نوشتہ دیوار کی صورت آویزاں ہوتا ہے کہ یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے، غیبت جو مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے اب وہ ایسی نہ رہی بلکہ سیاسی غیبت ہو گئی اور کسی سیلون میں اس پر گفتگو سے نہیں روکا جاتا، کیونکہ غیبت کی سیاسی قسم اختیار کرنا مردار بھائی کا گوشت کھانا ہے، حکمران بہت خوش ہیں کہ انہوں نے قوم کو سیاسی غیبت پر لگا کر پاناما کا پاجامہ سی دیا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی، لوگ بھی اب مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، بدامنی، ڈاکے، راہزنیوں کی بات نہیں کرتے بس کسی ایک حکمران یا وزیر وغیرہ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں اور کئی گھنٹے اس طرح چوس چوس کر بات کرتے ہیں، اس میں جو مزا ہے محبوب کی گالیوں میں نہیں، ہماری سیاست غیبت تراشی سے سب سے زیادہ فائدہ حکومت کے ستونوں کو اور بہت زیادہ نقصان خود ان غیبت کار سیاست پرستوں کو ہوتا ہے، سیاسی چہ میگوئیاں بھی غیبت سے زیادہ میٹھی ہوتی ہیں، گھروں سے دکانوں اور وہاں سے دفتروں تعلیمی اداروں تک ان کی رسائی ہے، ہر جگہ ہر مقام پر اچانک کوئی کہہ دیتا ہے کہ بس اب حکومت گئی کہ گئی، اور کوئی کہتا ہے اگلی باری بھی اسی کی ہو گی، اور ایسے میں اپنی باری تو کیا یاری بھی کھو بیٹھتے ہیں، اور پتہ چلتا ہے کہ موصوف چونکہ سیاسی چہ میگوئیوں اور غیبت کے مختلف موضوعات پر لطف اندوزی میں مصروف تھے، اور والدین نے سمجھا بجھا کر محترمہ کا نکاح کسی فارغ الغیبت سے پڑھا دیا، اس لذت گیری سے چوروں، جیب کتروں، راہزنوں اور بالخصوص حکمرانوں نے اپنی اٹھائی گیری کو بڑی ترقی دی، اتنی ترقی کہ قوم اپنی ترقی ہی بھول گئی۔
٭٭٭٭
تختِ لاہور سے تختِ بلاول ہائوس تک
....Oعمران خان:ٹرمپ بھی نواز شریف کو پاناما اسکینڈل سے نہیں بچا سکتا،
لگتا ہے پچھلے جنم میں نواز شریف اور عمران خان جولیس سیزر اور بروٹس رہے ہیں۔
....Oبلاول:بلوچستان حکومت بلوچوں سے زیادہ تخت رائیونڈ کی وفادار ہے،
ابھی بلاول صاحب ذرا انتظار کریں بلاول ہائوس کے تخت بننے میں کچھ دیر ہے۔
....Oحکومتی ایم پی اے انعام اللہ خان نیازی مال روڈ پر دن دیہاڑے لٹ گئے،
یہ کہیں ملی بھگت تو نہیں کہ کیا کریں ہمارے اپنے ایم پی ایز لوٹے جا رہے ہیں،
ایک عوام ہی نہیں تنہا لٹتے
اس شہر میں لٹیرے ہزاروں ہیں
....Oمریم اورنگزیب:پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ مردم شماری ہے،
محترمہ! اور بھی غم ہیں مردم شماری کے سوا،
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے،

.
تازہ ترین