• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی کے پڑھے لکھوں کی دنیا میں آگے پیچھے دو واقعات ہوئے ہیں۔آرٹس کونسل کاالیکشن اور کتابوں کا میلہ۔ دونوں پر ایک ہی فقرے میں تبصرہ یوں ہو سکتا ہے۔ ہواکرے خدا کرے،پر نہ خدا کرے کہ یوں۔کراچی آرٹس کونسل کے چناؤ کا تو یہ ہے کہ اگر نہ ہوں تو اس کا کچھ نہیں بگڑتا۔ اور ہو جائیں تو جمہوریت کا حسن کچھ اور نکھر آتا ہے۔ ہر بار محمد احمد شاہ جیت جاتے ہیں لیکن داد دینی چاہئے اس دوسرے دلیر امیدوار کو جو پھر بھی کھڑا ہوتا ہے۔پھر جیسا بھی ہو، مقابلہ ہوتا ہے، رونق ہوتی ہے، چہل پہل ہوتی ہے، تھوڑا سا دست وگریبان بھی ہوجاتا ہے، ووٹوں کی گنتی پر ہنگامہ ہوتا ہے اور حتمی نتیجے کے اعلان پر فساد اور تھانہ کچہری بھی ہو جاتی ہے مگر وہ جو پاکستان میں ایک اصطلاح عام ہے، یہ بھی جمہوریت کا حسن ہے۔
جو لوگ کراچی آرٹس کونسل کو عرصے سے جانتے ہیں وہ شہر کے قلب میں واقع اس عمارت کی تاریخ سے بھی واقف ہیں۔ اداروں پر بُرا وقت پڑنا عا م بات ہے لیکن جیسا بُرا وقت آرٹس کونسل پر پڑا تھا وہ ہمارا ہی دل جانتا ہے۔ ایک مرحلے پر تو غلّہ منڈی والوں نے یہاں اپنا گودام بنا لیا تھا اور قریب تھا کہ اس میں بوم بسے۔مگر پھر یہ ہوا کہ ہما کا بسیرا ہوا۔ عمارتیں بھی اپنے ساتھ اپنا مقدر لے کر آتی ہیں۔ یوں بھی ادارے اپنی عمارتوں سے نہیں چلا کرتے۔ افراد کے ہاتھوں میں اگر کچھ ہوتا ہے ہو اس کی درخشاں مثال کراچی آرٹس کونسل ہے۔ اب یہ ایسا جیتاجاگتا، سرگرم اور فعال ٹھکانہ ہے کہ کوئی شام ایسی نہیں جاتی جس میں یہاں چہل پہل، رونق اور دھوم دھام نہ ہو۔ ڈرامہ، رقص، موسیقی، مباحثہ، مذاکرہ، مزاح، ادب، مشاعرہ، ایک اردو ہی نہیں، ساری ہی زبانیں اس ادارے کو زندہ رکھتی ہیں۔ اور پھر سال کے سال عالمی اردو کانفرنس اپنے جلوے بکھیرتی ہے۔ دنیا زمانے سے لوگ کراچی آتے ہیں اور چار چار دن ان تمام معاملات پر غور ہوتا ہے جن کا تعلق اردو اور ملک کی دوسری زبانوں سے ہے۔ اعلیٰ کلاسیکی موسیقی کی محفلیںیہاں آراستہ ہوتی ہیں، آخر میں مصوری اور مجسمہ سازی کو عوام سے قریب لانے او رعوام کو اس ہنر کی باریکیوں سے روشناس کرانے کے فرض اسی ادارے میں انجام پاتا ہے کہ کراچی آرٹس کونسل کہیں جسے۔
ایک عجیب سی بات ہے مگر کہہ دی جائے تو اچھا ہے۔ کوئی لگی لپٹی نہیں، جب سے اس ادارے کو احمد شاہ کی سرپرستی حاصل ہوئی ہے اس کے انداز ہی بدل گئے ہیں۔ وہ اپنی دھن میں مگن رہتے ہیں اور جانتے ہیں کہ قدر شناس لوگ ان کی کتنی قدر کرتے ہیں۔ پھر بھی ادارے کے انتخابات ضرور کراتے ہیں اور اس میں اتنی گرم جوشی دکھاتے ہیں کہ جیسے اپنے ہار جانے کا خوف ہو۔ الیکشن جیتنے کے جتنے بھی مہذب حربے ہو سکتے ہیں وہ سارے کے سارے آزماتے ہیں۔ بلا شبہ ُاس جماعت کو داد دینی پڑتی ہے جو پھر بھی فتح کی آس لگائے مقابلے پر کھڑی ہوتی ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ آرٹس کونسل کی سرپرستی کا تاج سر پر سجانے سے احمد شاہ کو کے رکعت کا ثواب ملتا ہے اور وہ کون سی شے ہے جس کی رغبت لوگوں کو باہم لڑاتی ہے مگر جو بھی ہے، ہمیں کیا۔ ایک ادارہ کامیاب ہے، دوسرے فریق خدا جانے اس میں کون سے موتی ٹانکیں گے۔ایک عام اصول ہے کہ جو کام ٹھیک ٹھاک چل رہا ہو اس میں چھیڑ چھاڑ سے کیا حاصل ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انتخابات نہ ہوں۔ ضرور ہوں۔
شہر کراچی میں جو دوسرا معرکہ سر ہوا ہے وہ کراچی بُک فیئر یا کتابوں کا میلہ ہے جو اردو کانفرنس اور آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کے ادبی میلے کی طرح شہرت پا چکا ہے۔ ذرا سوچئے کہ شہر کے سب سے بڑے ہال میں لاکھوں کتابیں آراستہ ہوں اور ان کو دیکھنے، اٹھا نے، محسوس کرنے،ان کی خوشبو سونگھنے اور گھر لے جاکر پڑھنے کا عمل جاری ہو تو کراچی والو ں پر رشک آتا ہے کہ کیسے نصیبے والے ہیں۔ مگر یوں ہے نہیں۔ کتابوں کے میلے لگانے میں منتظمین کی خوش ذوقی کوبھی دخل ہونا چاہئے۔ مجھے معلوم ہے کہ اس نمائش میں نہایت اعلیٰ کتابوں کو بھی جگہ دی گئی لیکن میلے کا یہ مطلب نہیں کہ جس شے کی شکل و شباہت کتاب جیسی ہو اسے سجا کر رکھ دیا جائے اور فروخت بھی کیا جائے۔ وسیع اور کشادہ نمائش گاہ کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ بدذوقی کی پوٹ کو کتاب قرار دیا جائے اور وہ اس میلے میں بلا روک ٹوک لائی جائے اور بیچی جائے۔ اس سلسلے میں کوئی پیمانہ ہونا ضروری ہے۔ کہیں نہ کہیں لکشمن ریکھا کھینچنی ہوگی۔ اختلافی تحریروں کے پلندے کو کتاب کا نام دے کر عوام کے ہاتھوں میں تھمانے کانام کتب نوازی نہیں۔علم اور تفرقہ اکٹھے نہیں ہو سکتے، اس طرح علم کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ براہ کرم یہ مقتل شہر کی سب سے بڑی نمائش گاہ میں نہ سجایا جائے۔

.
تازہ ترین