• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شروع شروع میں تو مجھے یہ بحث بہت ہی فضول، گھٹیا اور بورنگ محسوس ہوئی کہ پاکستان کے سب سے ’’جوسی‘‘ یعنی رشوت سے لبریز شعبے یا محکمے کون سے ہیں لیکن پندرہ بیس منٹ بعد میں بھی اس بیہودہ گفتگو میں دلچسپی لینے لگا جس کا لب لباب، نچوڑ اور باٹم لائن یہ تھی کہ پولیس، انکم ٹیکس تو خوامخواہ بدنام ہیں اور کسٹم والے تو کب کے قصہ پارینہ ہوچکے۔ اریگیشن، محکمہ تعلیم، صحت، امیگریشن اور سب سے بڑھ کر تو ایل ڈی اے، سی ڈی اے کا بول بالا ہے جہاں نقب لگانے کیلئے ایڑیوں چوٹیوں کے زور لگائے جاتے ہیں۔ کسی کا کہنا تھا کہ واپڈا وغیرہ کا تو صرف ایک دن باقیوں کے چوکوں چھکوں پر بھاری ہے۔ واقفان حال مثال پر مثال دے کر ثابت کررہے تھے کہ کون کون اباجی اور دادا جی کا اثر رسوخ استعمال کر کے کہاں کہاں گھسنے کے بعد کیسی کیسی دیہاڑیاں لگا رہے ہیں۔ چند نام سن کر میری دلچسپی میں مزید اضافہ ہوا اور میں نے ’’ایکسپرٹس‘‘ یا یوں کہہ لیجئے کہ ’’سبجیکٹ سپیشلسٹس‘‘ سے وعدہ لیا کہ مجھے چند چوندے چوندے محکموں بارے مثالوں کے ساتھ ’’بریفنگ‘‘ دیں گے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ یوں تو حرام کوئی موضوع نہیں رہ گیا لیکن اس دھندے کے چند پہلو اتنے دلچسپ اور حیران کن ہیں کہ انہیں قارئین کے ساتھ شیئر کر کے ان کے ’’جنرل نالج‘‘ میں دانش ورانہ اور کالمانہ اضافہ کرنا بہت ضروری ہے لیکن آج ابرآلود موسم اور دھند کی حالت میں طبیعت کچھ روحانیت کی طرف مائل ہے اسی لئے حضرت حاتم اصمؒ یاد آرہے ہیں۔ آپ نے ایک دن اپنے مریدوں سے کہا ’’ایک مدت سے میں تمہارا رنج کھینچتا ہوں۔ ذرا یہ تو بتائو تم سب میں سے کوئی ایک ’’شائستہ بھی ہے؟ ‘‘لوگوں نے کہا ’’فلاں نے اتنے جہاد کیے ہیں‘‘ فرمایا ’’وہ تو غازی ہوا میں شائستہ چاہتا ہوں‘‘۔کسی نے کہا ’’حضرت! فلاں نے اس قدر مال خدا کی راہ میں خرچ کیا ہے‘‘ فرمایا ’’وہ تو سخی ہے مجھے شائستہ کی تلاش ہے‘‘ کوئی اور صاحب بولے ’’آپ کا فلاں مرید تو شب و روز عبادت کرتا ہے‘‘ بولے ’’وہ تو عابد ہوا مجھے شائستہ درکار ہے‘‘ کسی اور نے کہا ’’حضور! فلاں نے 20 حج کیے ہیں‘‘ مسکرائے اور بولے ’’وہ تو الحاج ہوا، میں تو کسی شائستہ سے ملاقات کا متمنی ہوں‘‘۔ حاضرین حیران پریشان ایک دوسرے کی شکلیں تکنے لگے اور بولے .......’’آپ ہی فرمایئے کہ شائستہ آدمی کون اور کیسا ہوتا ہے۔ اس کی تعریف اور پہچان کیا ہے؟‘‘ حضرت حاتم اصمؒ نے فرمایا.......’’لوگو! شائستہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور بغیر اس کے کسی پر کوئی امید نہ رکھے۔‘‘ ہمارے ہاں ذہن یا ضمیر یا دونوں ہی رہن رکھتے وقت نہ کوئی پرکھتا نہ سوچتا ہے بلکہ الٹا لیکچر بھاشن کی بدتمیزی، بے حیائی سے بھی باز نہیں آتے۔ چھوٹی موٹی اور بیحد عارضی قسم کی ناجائز پوسٹنگز، ٹرانسفرز اور ڈیپوٹیشن کے مارے بھی ڈھونگ ڈراموں سے باز نہیں آتے جیسے اور تو اور پیپلز پارٹی بھی اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور احتساب چاہتی ہے حالانکہ کم از کم ایسوں کو تو ’’مٹھ‘‘ رکھنی چاہئے تاکہ پرسکون طریقہ سے کسی پرسکون جگہ پر بیٹھ کر خاموشی سے دہی چاول کھاسکیں۔پھر حضرت حاتم اصمؒ یاد آئے۔ کوئی مالدار مقتدر ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ’’میرے پاس بے تحاشہ مال و دولت ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ اس میں سے جتنا چاہیں اپنے، اپنے مریدوں بچوں کے لئے رکھ لیں اور میرے لئے دعا فرمائیں‘‘۔ حضرت حاتم اصمؒ نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا،.......’’میں ڈرتا ہوں کہ اگر تجھے مجھ سے پہلے موت نے آلیا تو مجھے اپنے رب سے کہنا پڑے گا کہ ’’اے آسمان کے روزی دینے والے! زمین کی روزی دینے والا مر گیا۔‘‘انہی حضرت حاتم اصمؒ سے کسی نے کہا ’’حضور! فلاں شخص نے بے تحاشہ دولت جمع کرلی ہے‘‘۔
آپ نے ہنستے ہوئے پوچھا ’’کیا اس نے اس دولت جتنی زندگی بھی جمع کرلی ہے؟‘‘ عرض کیا ’’وہ کیسے؟‘‘ تو بولے...... ’’اتنا مال کبھی کسی مردے کے کام آتا نہیں دیکھا‘‘۔بدقسمتی کی انتہا یہ نہیں کہ کوئی ’’حرام‘‘ کا عادی ہو جائے کیونکہ ایسے شخص کا دل کسی وقت بھی پھر سکتا ہے۔ وہ کسی وقت بھی تائب ہو کر راہ راست پر واپس آسکتا ہے کہ توبہ کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔ انسان کی اصل بدنصیبی اور بدبختی یہ ہے کہ اس سے حرام اور حلال کی تمیز ہی چھن جائے اور وہ خود کو اس بات پر پوری طرح قائل کر لے کہ جو کچھ وہ کررہا ہے، ’’حرام‘‘ ہے ہی نہیں۔ بہت سے ’’حرام خور‘‘ اور ’’میرٹ چور‘‘ خود کو کنونس کر چکے ہوتے ہیں کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں، حرام ہے ہی نہیں جیسے ایک بار کسی ’’پرہیزگار‘‘ نے مجھے یہ کہہ کر حیران کردیا کہ وہ رشوت کو رشوت نہیں ’’بخشیش‘‘ سمجھ کر دیتا اوراپنا ہر کام نکلوا لیتا ہے اور یہ ٹیکنیک اسے اس کے ’’پیر صاحب‘‘ نے سمجھائی ہے۔

.
تازہ ترین