• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ کے لوگ بھی عجیب لوگ ہیں، آخر کار شاہ لطیف، سچل سرمست اور سامی کے پیروکار جو ٹھہرے، یہ شاعر اور صوفی بزرگ سندھ کے عوام کو یہی تو تربیت دیتے رہے ہیں کہ باہر سے آنے والے اور مظلوموں کی دل کی گہرائیوں سے داد رسی کرو۔ ’’یہی انسانیت اور یہی سندھیت ہے‘‘۔ یہ میرے الفاظ نہیں یہ الفاظ گھوٹکی کے ایک سندھی نوجوان کے ہیں جس نے گزشتہ اتوار کو مجھے ٹیلی فون کرکے نہ فقط اپنے ان جذبات سے آگاہ کیا مگر درخواست کی کہ ان کے یہ جذبات اپنے کالم میں ضرور شامل کروں، ان صاحب نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر بتایا کہ وہ ان نوجوانوں میں شامل ہیں جن کا ذکر آپ نے اپنے ان دو کالموں میں کیا تھا جو ’’سندھ کے ساتھ یہ سلوک کیوں‘‘ اور ’’سندھ کے ساتھ یہ سلوک کب تک‘‘ کے عنوان سے لکھے تھے جس میں آپ نے بتایا تھا کہ آپ کو سندھ کے مختلف نوجوانوں نے ٹیلی فون کرکے اس با ت پر اپنے غصے اور تشویش سے آگاہ کیا کہ سندھ میں کافی عرصے سے ’’نامعلوم لوگ‘‘ مختلف علاقوں سے جس میں تعلیمی ادارے بھی شامل ہیں، سے عمر رسیدہ افراد اور نوجوانوں کو اغوا کرنے کے بعد یا گم کر دیتے ہیں یا کہیں سے ان کی کچلی ہوئی لاش ملتی ہے، یا کچھ لوگ معجزانہ طور پر گھر پہنچ جاتے ہیں۔ ان ٹیلی فونز کے ذریعے ان نوجوانوں نے اس بات پر سخت غصہ ظاہر کیا تھا کہ ملک میں کوئی ایسا حکمران تو کیا فرد بھی نہیں جو ان گمشدگیوں کا نوٹس لیتا۔ اس سلسلے میں میری رائے یہ تھی کہ اس سلسلے میں پاکستان کے وزیر اعظم اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے کیا شکایت کریں جب قومی اسمبلی اور سینیٹ کے سندھی ممبران، سندھ اسمبلی کے ممبران، حکومت سندھ کے اعلیٰ ترین حلقے اور سندھ کی مختلف جماعتوں کے سربراہ بھی خاموش ہوں! مگر اس ’’نامعلوم‘‘ نوجوان نے اپنے اس ٹیلی فون پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان جسے سندھ کے اکثر لوگ ’’اصل تے وڈے پنجابی‘‘ کہہ کر اس کا مذاق اڑاتے ہیں نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں کم سے کم پنجاب سے گم شدہ ہمارے پنجابی بھائیوں کی گمشدگی کی اطلاع پر مہر تصدیق کی اور کہا کہ ’’اسلام آباد میں فقط ایک شخص سلمان حیدر کی گمشدگی کے بارے میں ایک رپورٹ درج کرائی گئی ہے‘‘، اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ ایسی دیگر گمشدگیوں کے بارے میں رپورٹیں لاہور میں درج کرائی گئی ہیں۔ مجھے ٹیلی فون کرنے والے اس نامعلوم سندھی نوجوان نے چوہدری نثار کی اس ’’بہادری‘‘ کی بہت تعریف کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے بارے میں چوہدری نثار کے عام رویوں سے سندھ کے لوگ بخوبی واقف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کی بھی پروا نہیں کہ سندھ میں ہونے والی اب تک کی گمشدگیوں کے بارے میں چوہدری نثار کا کوئی بیان نہیں آیا، اس نوجوان نے کہا کہ اگر چوہدری نثار کا سندھ کے بارے میں یہ رویہ ہے تو کیا ہوا؟ آخر سندھیوں کی حیثیت اس قدر کمزور کیوں ہے؟ اس نوجوان نے کہا کہ آج انہوں نے پنجاب سے گمشدہ ہمارے پنجابی بھائیوں کا جو ذکر کیا ہے اس کے بعد ان سے ہماری سب شکایتیں ختم ہوگئی ہیں۔ انہوں نے بار بار ٹیلی فون پر انسانیت کے نام پر درخواست کی کہ ان کی یہ ساری بات میں اپنے کالم میں شائع کروں اور میں یہ کرنے پر اپنے آپ کو مجبور محسوس کررہا ہوں، اس نوجوان نے مطالبہ کیا کہ اگر سندھی اور بلوچ نوجوانوں کا آپ تحفظ نہیں کرسکتے تو کم سے کم ہمارے ان پنجابی بھائیوں کا تو تحفظ کریں۔ اس نوجوان نے یہ بھی اعلان کیا کہ اگر یہ گمشدہ پنجابی بھائی زندہ اپنے خاندانوں تک پہنچائے جاتے ہیں تو میں سندھ کے عوام سے اپیل کروں گا کہ وہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے سارے حکمرانوں اور خاص طور پر چوہدری نثار اور خادم پنجاب ’’شہباز شریف‘‘ کے سارے گناہ معاف کردیں، اس مرحلے پر اس نوجوان نے کہا کہ سندھیوں اور بلوچوں کا گم ہونااور مارا جانا تو شاید ہماری تاریخ بن گئی ہے۔ بہرحال اس مرحلے پر انہوں نے اس بات کی تعریف کی کہ چوہدری نثار نے گمشدہ پنجابی بھائیوں کا کیا ذکر کیا خود برطانیہ اور امریکہ کے اعلیٰ ترین حکمرانوں نے بھی ان بھائیوں کا ذکر کیا، اس سندھی نوجوان کا کہنا ہے کہ کیا ہوا اگر انہوں نے گمشدہ سندھیوں اور بلوچوں کا ذکر نہیں کیا، کم سے کم ہمارے پنجابی بھائیوں کی گمشدگی کا تو ذکر کیا۔ اس طرح کسی حد تک ہمارے سینوں پر بھی ہاتھ رکھ لیا جس کے لئے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ واضح رہے کہ چند دن پہلے اخباری خبروں کے مطابق پنجاب کے ان لاپتہ بھائیوں کی گمشدگی پر امریکہ اور برطانیہ نے بھی سخت تشویش ظاہر کی، سندھ اور بلوچستان سے گمشدگیوں کی کہانی تو بہت پرانی ہے مگر اب تو نہ فقط پنجابی بھائیوں کی گمشدگی کی باتیں ہورہی ہیں بلکہ اب تو کے پی کے علاقے ’’مالاکنڈ‘‘ سے بھی ایسی گمشدگیوں کی اطلاعات آئی ہیں۔ مثال کے طور پر 10جنوری کو سینیٹ کے اجلاس میں اس ایشو پر بحث کے دوران پی پی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ مالاکنڈ حراستی مرکز سے تقریباً37 افراد گم کر دیئے گئے تھے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے اس بات کا نوٹس لینے کے نتیجے میں ان میں سے اب تک فقط سات افراد بازیاب ہوسکے ہیں جبکہ باقی گمشدہ افراد کا اب تک کوئی پتہ نہیں، بلوچستان میں تو یہ سلسلہ غالباً 50 کی دہائی کے دوران شروع ہوا تھا جہاں تک سندھ سے سیاسی رہنمائوں کی گمشدگیوں کا تعلق ہے تو میں اس سلسلے میں دو کالم لکھ چکا ہوں مگر اب بھی میرے پاس ایسے لوگوں کی فہرست موجود ہے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ اس سلسلے میں، میں ایک الگ کالم لکھوں۔ میں فی الحال فقط اتنا لکھ کر کالم ختم کروں گا کہ23نومبر کی آدھی رات کو کڑیو گھنور سے پولیس کی طرف سے بزرگ سیاسی رہنما ’’استاد راہموں‘‘ کو گرفتار کیے جانے کے بعد ان کا کوئی پتہ نہیں ہے، اس رات سے اب تک ان کی بیمار بیوی اور بیٹیوں کی بھوک ہڑتال جاری ہے۔ زندہ باد سندھ کے حکمران، زندہ باد سندھ اسمبلی کے ممبران، زندہ باد سینیٹ اور قومی اسمبلی کے سندھی ممبران۔

.
تازہ ترین