• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
بڑے سال پہلے غالب کو اُس وقت معشوق کے تُو کہنے اور عاشق کی بے توقیری نہ بھائی جس دور میں نازو انداز میں ڈھلے محبوب کی زبان سے نکلی ہر بات اتنی شیریں تھی کہ رقیب گالیاں کھا کر بد مزہ نہیں ہوتا تھا مگر تو تکار کو تب بھی پسند نہیں کیا جاتا تھا یعنی آداب کا خیال محبت سے آگے کی چیز ہے۔ انسان جس سے محبت کرتا ہے اُس کی عزت کو اپنا ایمان بنا لیتا ہے محبت کرنا در اصل حد سے زیادہ عزت کرنے اور کسی کو اپنی ذات سے زیادہ اہمیت دینے کے مترادف ہے۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ انسان کے دل میں محبت کے ٹھاٹھیں مارتے دریا ہوں مگر اُس کے لبوں پر حرف ملامت ہو۔ اظہار اور احساس ایک دوسرے سے جُڑے ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے میں رچے بسے ہوتے ہیں۔
زبان کسی بھی قوم کی ثقافت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ تقریر اور گفتگو انسان کے فکری رجحانات اور احساسات کے عکاس ہوتے ہیں۔ اِس لئے ’’پہلے تولو پھر بولو‘‘ پر زور دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات اِنسان کا باطن اتنا میلا نہیں ہوتا مگر اُس کی گفتگو اور تلخ الفاظ کی ادائیگی اُس کے رویے کو مشکوک کر دیتی ہے۔ ہمارے ہاں تحریر کے حوالے سے تو کسی قدر قابلِ قبول صورتحال ہے مگر تقریر یعنی گفتگو میںجو بدزبانی گزشتہ کچھ سالوں سے معاشرے کی رگوں میں در آئی ہے وہ ہماری شناخت بنتی جا رہی ہے۔ یعنی ہم ایک ایسے غیر مہذب سماج کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں جہاں دوسرے کی منشا اور مرضی کی کوئی اہمیت نہیں۔ میڈیا میں موجود کچھ افراد نے خود کو جج سمجھ کر فیصلے کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ وہ عقل، منطق اور ثبوث کے بغیر اپنی پسند نا پسند کو بنیاد بنا کر مخالفین پر صرف الزامات عائد نہیں کرتے بلکہ ان کی کردار کشی کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ ان کی جیب میں ہر وقت مختلف قسم کے فتووں کی مہریں رکھی ہوتی ہیں۔ جب بھی کسی کی کوئی ادا گراں گزری یا کبھی کسی تیسرے کو خوش کرنا مقصود ہوا تو فوراً اُس کے کردار پر بھیانک مُہر لگا دی۔ اُس پر ایسے الزامات عائد کئے جن کے بارے میں وہ کبھی سوچ بھی نہ سکتا ہو۔
سوال یہ ہے کہ یہ رویہ صرف میڈیا تک محدود نہیں بلکہ ہمارے پورے معاشرے کی رگوں میں سرایت کر گیا ہے اور رویوں میں رچ بس گیا ہے۔ لوگوں میں قوت برداشت بالکل ختم ہوتی جا رہی ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ اپنی پسند کا پر چار کیا جاتا ہے بلکہ اپنی مرضی مسلّط کرتے ہوئے دوسرے کی رائے اور آزادی سلب کرنے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے اور بد قسمی سے سیاستدان اس کے سب سے بڑے نمائندے ہیں۔ بڑی مشکل سے جمہوریت کا پودا آزاد فضا میں پھلنے پھولنے لگا ہے۔ آج کی محنت کل ثمر آور ہوسکتی ہے اگر رویوں میں تھوڑی سے مثبت تبدیلی کا آغاز ہو جائے۔ جس جماعت کو دیکھیں وہ دوسرے کو چور ثابت کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ سب سے زیادہ تنقید حکومتی جماعت کے حِصّے میں آتی ہے۔ اس لئے کہ اُسے اقتدار میں دیکھنا کچھ لوگوں کو گراں گزرتا ہے۔ یہاں بھی تنقید پالیسیوں یا کارکردگی پر کم اور شخصیت پر زیادہ ہوتی ہے جو اپنی جگہ نہ صرف غیر صحت مندانہ رویہ ہے بلکہ اقتصادی اور اخلاقی بدتری کا باعث بھی بن رہا ہے۔ حکومت کو ہر وقت کٹہرے میں کھڑے رکھنے سے اس کی کار کردگی متاثر ہوتی ہے۔ اُسے پوری توجہ سے جاری منصوبوں کو مکمل کرنے کی بجائے جوابدہی کے معاملات میں اُلجھا کر ملک و قوم کا وقت ضائع کیا جاتا ہے۔ اس سے ہمارا آنے والا کل متاثر ہو رہا ہے۔ وہ کل جس میں ہماری نئی نسل کو اُس زمانے کے ساتھ چلنا ہے جو تیزی سے تہذیب و تمدن کے مراحل طے کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے جبکہ ہماری نئی نسل کے مزاج اور رویّے بزرگوں کی پیروی سے آلودہ ہو رہے ہیں کیونکہ بچے جو انداز گفتگو دیکھتے اور سنتے ہیں اسی طرح عمل کرتے ہیں۔ سیاست میں ایکشن اور ری ایکشن نے عجیب مرحلہ وار جنگ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ مخالفت اگر مثبت تنقید تک رہے تو اسے پذیرائی ملتی ہے اور کہنے والے کی ذات بھی معتبر کہلاتی ہے مگر جب مخالفت ذاتی عناد اور گالی گلوچ بن کر تمام حدیں عبور کر دے تو بے معنی ہو جاتی ہے۔ آج کل اسی طرح کی مخالفت برائے مخالفت کا رواج ہے۔ کچھ سیاسی رہنما کسی بھی دلیل کو ماننے اور بات کرنے کو تیار نہیں وہ ہر وقت لڑائی جھگڑے اور سیاسی فضاء کو جنگ و جدل کی فضاء بنانے پر تُلے رہتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ کچھ لوگ عدالتی نظام پر بھی اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تمام فیصلے اُن کی منشاء کے آئینہ دار ہوں۔ یہ بھی آمریت کی بد ترین شکل ہے جو جمہوری دور میں پروران چڑھ رہی ہے۔ ملک کو جمہوری طرزِ عمل سے روشناس کرانے کے لئے ہر قسم کی بنیاد پرستی کو ہوا دینے والے عناصر کا محاسبہ ضروری ہے۔ ضیاء الحق کے دور سے پہلے والے پاکستان کو دیکھیں تو اُس میں انسانی قدروں کی علمبرداری کے ساتھ ساتھ زندگی میں خوشی اور استراحت کے رنگ نمایاں نظر آتے ہیں۔ اُس دور میں لوگوں کے پاس بڑی بڑی ڈگریاں نہیں تھیں مگر وہ اپنی دانش سے وقت کی آواز سننے پر قادر تھے۔ زمین کے باطن میں جھانک کر اپنا ماضی دیکھ لیتے تھے اور اپنی تاریخ رقم کرتے تھے وہ صرف انسان تھے۔ لڑکے، لڑکیوں کے لئے الگ الگ ڈبے نہ تھے، شادیوں پر ایک جشن کا سماں ہوتا تھا، بھنگڑے، لڈیاں ڈالی جاتی تھیں، لوگ میلوں ٹھیلوں میں جا کر کھیلوں اور تفریحی سرگرمیوں میں حصہ لیتے اور ایک صحت مند زندگی گزارتے تھے۔ اُس منظر نامے سے باہر آ کر آج کو دیکھیں تو معاشرہ عجیب تقسیم کا شکار نظر آتا ہے۔ ہر کوئی دوسرے سے کٹا ہوا ہے بہت سے اَن دیکھے خوف ہوا میں سرایت کئے ہوئے ہیں۔ معاشرے کا بڑا حصہ خود تک محدود ہو کر رہ گیا ہے وہ ایک ایسی مصنوعی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا جس میں روحانی سکون میسر نہیں۔ اَپر کلاس نے اپنے گھروں کے وسیع صحنوں اور فارم ہاؤسز میں اپنی مند پسند خوشیوں کا اہتمام کر رکھا ہے وہ پوری آزادی سے اپنی زندگی جی رہے ہیں جبکہ غریبوں اور مڈل کلاس طبقات سے خوش ہونے کا حق چھین لیا گیا ہے۔ ذات کی خوشی سے جڑے ہر فعل کو اچھے بُرے کے پلڑے میں تول کر اس کے ذہن کو اُلجھا دیا گیا ہے۔ انسان کا مسئلہ صرف روٹی کپڑا مکان نہیں بلکہ اُسے اپنے باطن کی تشفی اور روح کی تسکین کے لئے دل کی طرف دھیان کرنا پڑتا ہے جو بیک وقت مادی اور غیر مادی دنیا سے جڑا ہوا ہے۔ انسان کے جمالیاتی ذوق کی تسکین بھی اُتنی ہی ضروری ہے جتنی باقی بنیادی ضروریات ہیں۔ آرٹ اور کلچر سرگرمیاں اُس کے احساسات کا وہ اظہار ہیں جن پر پابندی عائد کرنے سے باطن حبس زدہ ہو کررہ جاتا ہے۔ باطن کی ناخوشی ظاہر کو بھی ملول کر دیتی ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ انسان کو کلچرل سر گرمیوں کے ذریعے اپنے دکھوں کے کتھارسز کا موقع اور خوش ہونے کا حق دیا جائے۔ کلچر موجود ہے صرف اس کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔

.
تازہ ترین