• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قول و فعل کا تضاد منافقت کہلاتا ہے اور منافق صادق و امین نہیں ہوسکتا کیونکہ منافقت کی بنیاد جھوٹ پر استوار ہوتی ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ اپنے دینی اور تاریخی ورثے سے محرومی بھی منافقت ہی ہوتی ہے اور میرے نزدیک منافقت ہی آج دنیائے اسلام کے زوال کی بہت سی وجوہ میں سے ایک اہم وجہ ہے۔ آپ پاکستان سمیت ساری مسلمان یا اسلامی مملکتوں پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو حکمرانوں میں اپنے دینی اور تاریخی ورثے کی پرچھائیں بھی نظر نہیں آئیں گی البتہ بادشاہت، ملوکیت اور آمریت کے ہر قسم کے نمونے ملیںگے۔ مسلمان کا دینی اور تاریخی ورثہ کیا ہے؟ میرے مطالعے کے مطابق مسلمان کا دینی و تاریخی ورثہ امانت و دیانت ہے۔ امانت و دیانت کے عملی نمونے اور مثالیں دیکھنی ہیں تو خلافت ِ راشدہ کے دور ِ حکومت کا مطالعہ کیجئے۔ اگر ایسا ممکن نہیں تو صرف حضرت عمرؓ کے دور ِ خلافت پر ہی نظر ڈال لیجئے، آپ کو اسلامی تصورِ ریاست، قانون کی حاکمیت، انسانی مساوات، عدل و انصاف، قومی خزانے کا تقدس، فلاحی ریاست کی ذمہ داریاں، حکمران کی سادہ اور شفاف زندگی اور تمام شہریوں سے مذہب، رنگ و نسل کی تمیز کے بغیر برابری کی ایسی ایسی مثالیں ملیں گی کہ آپ کے قلب و ذہن منور ہوجائیں گے۔ حکومت کے سارے وسائل آپ کےپائوں کی ٹھوکر میں ہوں اور آپ انہیں اپنی ذات اور خاندان پر استعمال کرنے سے مکمل اجتناب کریں۔ یہ مجاہدہ نہیں تو اور کیاہے؟ یہ ضبط ِ نفس نہیں تو اور کیاہے؟ ضبط ِ نفس سے انحراف کرنے والے اپنی خواہشات کے غلام ہوتے ہیں۔ خواہشات کیا ہوتی ہیں؟ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔ نفس کے تقاضے شہنشاہی، عیش و عشرت، ٹھاٹ باٹھ، دولت واختیار کی بے لگام ہوس اور شان و شوکت وغیرہ ہیں۔ سچا مسلمان نفس کا غلام نہیں ہوتا کیونکہ وہ زندگی رضائے الٰہی کے تقاضوں کے مطابق گزارتا ہے۔ البتہ صوفی وہ ہوتا ہے کہ جو اپنے نفس کو اپنا غلام بنا لے اور اپنی خواہشات کے بے لگام گھوڑے کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنا لے۔ یہ عام انسان کے بس کا روگ نہیں۔البتہ اللہ پاک کی عطا کردہ نعمتوں سے خوب فائدہ اٹھانا لیکن ان تمام معاملات سے پرہیز کرنا جنہیں اللہ پاک ناپسندیدہ قرار دیتے ہیں، مسلمان کی زندگی کا شیوہ ہے۔
آج ہمارے ملک میں سارے سیاسی خلفشار اور آئینی بحران کی جڑ کیا ہے؟ بنیاد اور Root Cause کیا ہے؟ موجودہ سیاسی بحران کی ایک اہم وجہ سیاسی نہیں بلکہ اخلاقی نوعیت کی ہے۔ اخلاقی نوعیت کی اس لئے کہ اس کا اصل سبب منافقت ہے یعنی قول و فعل کا تضاداور اپنے دینی و سیاسی ورثے سے مکمل انحراف..... ذرا غور کیجئے تو محسوس کریں گے کہ سارے خلفشار کا سبب ہمارے آئین کی وہ شقیں ہیں جنہیں ہم شق 63/62 کہہ کر حوالے دیتے ہیں۔ ان شقوں کی روح اور تقاضے کیا ہیں؟ فقط دوالفاظ امانت و دیانت یعنی رکن اسمبلی صادق و امین ہو، سچ بولتاہو۔ آئین کی شقیں 63/62کی تفصیلات سے فی الحال صرف ِ نظر کر بھی لیں تو ان الفاظ پر نگاہیں ٹھہر جاتی ہیں جو آئین میں لکھے گئے ہیں۔ "Non Profligat, honest, ameen" یعنی فضول خرچ اور وسائل کا زیاں کرنے والا نہ ہو۔ ایمان دار اور امین ہو۔
ہمارے آئین نے یہ شرائط رکن اسمبلی کے لئے رکھی ہیں اور جو شخص رکن اسمبلی بننے کا اہل ہو صرف وہی وزیراعظم بن سکتا ہے۔ اصل جھگڑا تو یہ ہے کہ آئین کے تقاضوں سے روگردانی اور انحراف ہو رہا ہے۔ قانون کی خلاف ورزی بلکہ پامالی ہو رہی ہے۔ بہت سے اراکین اسمبلی جن میں سابق وزیراعلیٰ جناب جمالی صاحب بھی شامل ہیں اور خود عدالت ِعالیہ کے کئی جج صاحبان یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر صادق وامین کے معیار پر پرکھاجائے تو اسمبلی کے اکثر اراکین فارغ ہو جائیں گے۔ اکثر کا لفظ میں رعایتاً استعمال کر رہا ہوں۔ ان کاکہنا ہے کہ شاید کوئی رکن بھی آئین کی اس شق کی زد سے محفوظ نہ رہے۔ ظاہر ہے کہ جب ’’ٹاپ‘‘ اور اعلیٰ ترین سطح پر آئین کی خلاف ورزی عیاں ہو تو پھر نیچے کاکیا حال ہوگا؟ یہ صورتحال لاقانونیت کو فروغ دے گی اور خلفشار کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ دیکھا جائے تو پاناما اسکینڈل اور اس پر مقدمات کی بنیاد یہی ایک آئینی شق ہے جس کے مطابق قومی وسائل لوٹنے والا، منی لانڈرنگ اور غیرقانونی طریقوں سے بیرون ملک اثاثے بنانے والا، غلط بیانی کا ارتکاب کرنے والا، سرکاری حیثیت کا غلط استعمال کرنے والا، وغیرہ وغیرہ رکن اسمبلی یا حکمران بننے کا اہل نہیں رہتا۔ اسی منافقت سے موجودہ سیاسی و آئینی بحران پیدا ہوا ہے جس نے عدالت ِ عالیہ کو پریشان کر رکھا ہے کہ اگر ان آئینی شقوں کا صحیح اطلاق کیا جائے تو پھر کچھ بھی نہیں بچے گا۔ خطرناک مثالیں قائم ہوں گی اور پچھتاوے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ مطلب یہ ہوا کہ ہم جو تقاضے نبھا نہیں سکتے، انہیں آئین میں سجانے کی منافقت کیوں کی جائے؟ سنگین غداری High Treason بھی ہمارے آئین کی شق نمبر 6ہے جس پر عملدرآمدکرنا ممکن نہیں۔ تو پھر کیا جن شقوں پرعمل کرناممکن نہیں انہیں آئین سے فارغ کردینا حقیقت پسندی نہیں؟ ایسا کرنا بھی ممکن نہیں۔ کون اپنے سر یہ الزام لےگا کہ وہ صادق و امین کے الفاظ سے خوفزدہ ہے؟ کون یہ مانے گا کہ وہ جھوٹا ہے اور قومی امانت میں خیانت کرتاہے؟ یہی منافقت اس فیصلے کی راہ میں حائل ہے۔ مطلب یہ کہ پاناما اسکینڈل نے جس عدالتی لڑائی کو جنم دیاہے وہ سیاسی ہے اور جنگ تخت نشینی کہی جاسکتی ہے لیکن پاناما نے جس بحران کو جنم دیا ہے اس کی نوعیت اخلاقی ہے..... اخلاقی قدروںکا قحط جو ہماری قومی زندگی کے تمام شعبوں پر چھا چکاہے۔

.
تازہ ترین