• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یکم فروری 1943کا واقعہ ہے جب امرتسر کے ایک کشمیری علمی گھرانے کے ایک فرد کے ہاں کئی بیٹیوں کے بعد ایک بیٹا پیدا ہوا جو اتنا لاڈلا تھا کہ اس کا نک نیم ’’شہزادہ‘‘ پڑ گیا۔ وہ ’’شہزادہ‘‘ میں تھا اور آج میرا یوم پیدائش ہے اور میں نے واقعی اپنی ابتدائی زندگی شہزادوں ہی کی طرح بسر کی۔ میرے والد ماجد مولانا بہاءالحق قاسمی ؒ امرتسر سے ہجرت کے بعد جب وزیرآباد آئے تو وہاں اسکول ٹیچر مقرر ہوئے۔ کم تنخواہ کے باوجود ہمیں کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ ہم آٹھ بہن بھائی اور والد والدہ سمیت دس افراد خانہ ماشاءاللہ دہی کلچے کے ناشتے کے علاوہ دن میں دو وقت کھانا کھاتے تھے۔ میرے پاس کرتے پاجامے کے دو جوڑے تھے۔ اللہ کے فضل و کرم سے پائوں میں جوتے بھی تھے اور اسکول جانے کے لئے دو ٹانگیں تھیں۔ وزیرآباد میں سردی بھی بہت پڑتی تھی چنانچہ سویٹر کی ’’موجودگی‘‘ کے باوجود جب دانت سے دانت بجتے اور منہ سے بھاپ نکلتی تو بہت مزہ آتا تھا۔ میری پھوپھیاں اور ان کے اہل خانہ بھی وزیرآباد میں ہی رہتے تھے۔ والد ماجد گرمیوں میں پورے خاندان کو دریائے چناب لے جاتے تھے اور ہم وہاں پکنک مناتے۔ والد ماجد اپنے اس شہزادے کو اپنے کاندھوں پر بٹھا کر تیرتے تیرتے دریا میں دور تک چلے جاتے۔ پھریوں ہوا کہ والد محترمؒ اپنے استاد مفتی محمد حسنؒ (بانی جامعہ اشرفیہ) کے حکم پر ماڈل ٹائون لاہور چلے آئے اور اے بلاک کی جامع مسجد کے خطیب مقرر ہوئے۔ شہزادہ یہاں ماڈل ہائی سکول میں داخل ہوا اور یہاں بھی اسکول جانے کے لئے دو ٹانگیں کافی تھیں۔ یہاں سے اس نے میٹرک پاس کرنے کے بعد ایم اے او کالج میں فرسٹ ایئر میں داخلہ لیا تو اس کی عیاشی کا یہ عالم تھا کہ پیدل کی بجائے اس نے لاکھوں کی بس میں کالج جانا شروع کر دیا۔ اب وہ کرتے یا پاجامے کی بجائے قمیص اور پتلون پہنتا تھا مگر والد ماجد کی طرف سے قمیص کے کناروں کو پتلون کے اندر کرنے کی اجازت نہیں تھی، جو رفتہ رفتہ اس نے حاصل کر لی۔ کیا مزے کی زندگی تھی بس کے دروازے سے لٹک کر کالج جاتے، وہاں کبھی کبھار کلاس میں بھی جانا ہوتا تھا مگر کلاس فیلوز کے ساتھ کالج گرائونڈ اور کالج کے باہر کی سرگرمیوں کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ اس کے بعد ایم اے کے لئے اورینٹل کالج میں داخلہ لیا۔ کالج کی ماہانہ فیس مبلغ دس روپے تھی، نصف جن کے پانچ روپے بنتے ہیں۔ جس طرح خدا خدا کر کے بی اے کیا تھا اسی طرح خدا خدا کر کے ایم اے بھی کر لیا۔ اس دوران شہزادے نے نوائے وقت جوائن کیا اور سنڈے میگزین میں سنڈے فیچر لکھنے کے علاوہ کالم نگاری بھی شروع کر دی تھی۔ تنخواہ ہر مہینے باقاعدگی سے تین سو تیرہ روپے ملتے، جنہیں خرچ کرنے کے لئے شہزادے کو بہت محنت کرنا پڑتی۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ شہزادے کے ماڈل ٹائون کے سارے دوست خالدی، منیر شاہ، مالک، مسعود اور اکی کا ایک ’’اجلاس‘‘ خالدی کی چھ کنال کی کوٹھی کے ڈرائنگ روم میں ’’منعقد‘‘ ہوا جس میں امریکہ جانے کا ’’فیصلہ‘‘ کیا گیا۔ ان سب نے جہاز کا ٹکٹ لیا اور باری باری امریکہ چلے گئے۔ مجھ ’’حجرہ نشین‘‘ شہزادے کے لئے یہ ممکن نہیں تھا ۔ نوائے وقت کی سب ایڈیٹری کے دوران میں نے ایک ففٹی سی سی موٹر سائیکل خرید لی تھی۔ اس سواری کو موٹر سائیکل میں نے خود قرار دیا ہے ورنہ اسے ’’پھٹپھٹی‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ جنس کب سے نایاب ہے۔ میں نے یہ پندرہ سو روپے میں فروخت کی۔ کچھ پیسے والد محترم اور کچھ بھائی جان ضیاءالحق قاسمی (مرحوم) سے لئے اور یہ شہزادہ پیدل ہی یورپ کے لئے روانہ ہو گیا۔ پیدل ان معنوں میں کہ جہاز کی بجائے بسوں، ٹرینوں، ٹرکوں اور لفٹ وغیرہ کے ذریعے لکسمبرگ جا پہنچا اور وہاں سے ایک جہاز کی سستی ترین ٹکٹ لے کر امریکہ جا اترا۔ لاہور سے نیویارک پہنچنے پر میرے چھ ہزار روپے یعنی چھ سو ڈالر خرچ ہوئے کہ اس زمانے میں ایک ڈالر دس روپے کا تھا۔ ان چھ ہزار روپوں میں راستے میں آنے والے ملکوں کے ہوٹلوں میں قیام و طعام کے اخراجات بھی شامل تھے۔
اور اب یہ حجرہ نشین امریکہ میں تین ہزار ڈالر ماہوار کما رہا تھا۔ ایئر کنڈیشنڈ اپارٹمنٹ میں رہتا تھا، شیورلیٹ گاڑی اس کے پاس تھی۔ وہاں اکی تھا، مسعود تھا، مالک تھا، طارق بخاری تھا، خالدی تھا اور ان کے علاوہ بھی ’’بہت کچھ‘‘ تھا مگر اس کا دل بے چین تھا۔ اسے اپنے بھائی، بہن، والد، اپنی دھرتی اوراپنی شہزادگی کا زمانہ یاد آتا تھا تو وہ مضطرب ہو جاتا تھا۔وہ سوچتا تھا کہ اگر اس کی عدم موجودگی میں اس کے والد (والدہ تو کب کی فوت ہو چکی تھیں) کو کچھ ہو گیا تو وہ خود کو ساری عمر معاف نہیں کرے گا۔ اسے یہ سوچ بھی بے چین کرتی تھی کہ اگر خود اسے کچھ ہو گیا تو اسے یہاں گوروں کے قبرستان میں دفن ہونا پڑے گا جبکہ وہ تو اپنے ماڈل ٹائون کے قبرستان میں دفن ہونا چاہتا تھا جہاں سے درود و سلام کی صدائیں سنائی دیتی ہیں۔ اس کی ایک سوچ یہ بھی تھی کہ اگر وہ امریکہ میں شادی کرتا ہے تو ممکن ہے اس کی نسل میں سے کسی کا نام ’’پیرزادہ پیٹر قاسمی‘‘ ہو اور اس کے خاندان کی ایک ہزار سالہ دینی پس منظر کی تاریخ میں ایک باب یہ بھی آئے۔ اس خاندان کے شاگردوں میں ماضی بعید میں حضرت مجدد الف ثانیؒ اور ماضی قریب کی تاریخ میں امیر شریعت عطاءاللہ شاہ بخاری ؒ اور بانی جامعہ اشرفیہ مفتی محمد حسنؒ کے علاوہ سینکڑوں علماء و مشائخ کے نام شامل تھے۔ چنانچہ دو سال امریکہ میں رہنے کے بعد ایک دن اس جلا وطن شہزادے نے واپس اپنی ’’ریاست‘‘ میں جانے کا ارادہ کیا اور ہاں اس دوران وہ جو کماتا تھا سیر و سیاحت پر صرف کردیتا تھا چنانچہ ملکوں ملکوں گھومتے اور رنگ برنگے لوگوں سے ملتے ملاتے شہزادہ جس طرح امریکہ پہنچا تھا اس کی لذت اسے ابھی تک یاد تھی۔ شہزادے نے سوچا کہ واپس بھی اسی طرح جانا ہے۔ چنانچہ ضدی شہزادے نے دوستوں کے منع کرنے کے باوجود ایک دن پاکستان کے لئے رخت سفر باندھ لیا۔
اب ذرا کچھ دیر رکیں۔ یہ فیصلہ آسان نہیں تھا اور اس پر عملدرآمد میں یہ خدشہ پوشیدہ تھا کہ میں ساری عمر چھوٹی چھوٹی چیزوں میں خوشیاں تلاش کرتا رہا ہوں اور چمک دمک والی زندگی نے مجھے کبھی متاثر نہیں کیا اور یوں جس دولت سے میں ساری عمر مالا مال رہا وہ کہیں امریکہ میں گزرے ہوئے ماہ و سال کی وجہ سے میری شہزادگی کی بنیادوں پر اثرانداز نہ ہو۔ مجھے جن سہولتوں کی عادت پڑ گئی ہے کیا وہ عالیشان سڑکوں سے ٹوٹی ہوئی سڑکوں، ایئر کنڈیشنڈ اپارٹمنٹ سے تین کمروں کے سیلنگ فین والے کرائے کے گھر، شیورلیٹ کار سے بسوں تک کا ریوس سفر کہیں مجھے اس نشے سے محروم تو نہیں کردے گا جو نشہ مجھے اس شہزادگی میں ملتا تھا جس میں چیزوں کے حصول میں خوشی تلاش کرنے کی بجائے جو میسر تھا میں اسی سے خوشی کشید کر لیا کرتا تھا۔ مگر یہ خدشہ غلط ثابت ہوا۔ میں امریکہ سے بائی ایئر یورپ اور یورپ سے بائی روڈ پاکستان کے لئے روانہ ہو گیا۔ مسعود علی خان بیس پچیس سال بعد واپس پاکستان آیا ۔ مالک بلکہ ڈاکٹر مالک، طارق بخاری ابھی تک امریکہ ہی میں ہیں اور اکی امریکہ سے برطانیہ آچکا ہے۔ سید منیر شاہ جو امریکہ سے ہالینڈ چلا گیا تھا ہالینڈ سے واپس پاکستان آ گیا اور اب پھر غالباً امریکہ ہی میں ہے اور خالدی ہانگ کانگ میں وفات پا چکا ہے۔
اب آگےچلتے ہیں ملکوں ملکوں گھومتے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیتے میں یورپین ملکوں سے ہوتا ہوا ترکی اور ترکی سے ایران پہنچا جس کے سرحدی قصبے سے بائی ٹرین میں کوئٹہ اور کوئٹہ سے لاہور پہنچا۔ میں نے گھر والوں کو سرپرائز دینے کا سوچا تھا۔ اس وقت شام ہونے کو تھی جب میں نے اپنے گھر کی بیل پر انگلی رکھی اور تھوڑی دیر بعد میرے ابا جی نے دروازہ کھولا۔ انہوں نے مجھے اچانک اپنے سامنے پایا تو خوشی سے ان کا چہرہ دمک اٹھا۔ انہوں نےکام کاج میں مصروف میری بہنوں کو پکارا اور کہا ’’کڑیو شہزادہ آ گیا ہے‘‘ ان کی خوشی سے لرزتی ہوئی آواز اور ان کے چہرے سے پھوٹتی مسرت میری زندگی کا حاصل ہے۔ اس رات یہ شہزادہ ایئر کنڈیشنڈ کمرے کی بجائے جب صحن میں بان کی چارپائی پر لیٹا تو تاروں بھرا آسمان اس کے سامنے تھا۔ یہ ستارے بہت دنوں بعد نظر آئے تھے۔ شہزادے کو جلدی نیند آگئی۔
اور یہ شہزادہ خود کو ابھی تک نیند میں محسوس کر رہا ہے کہ اس کے بعد وہ پاکستان کی مشہور شخصیت بھی بنا، ترقی کی بہت سی منزل بھی طے کیں مگر خواتین و حضرات! اب وہ بڑا آدمی شہزادہ نہیں ہے۔ سادگی کی زندگی بسر کرنے والا اس زندگی کے لطف سے محروم ہو کر اپنے وطن میں ہوتے ہوئے بھی ایک بار پھر جلاوطن ہوچکا ہے۔

.
تازہ ترین