• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ ساتھ معیشت بھی مستحکم ہو رہی ہے ۔ اقتصادی اشاریوں یعنی انڈیکیٹرز سے اس امر کی تصدیق ہو تی ہے ۔ یہ مفروضہ کسی حد تک غلط ثابت ہو رہا ہے کہ آمرانہ حکومتوں میں معیشت بہتر ہوتی ہے اور شرح نمو میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ جمہوری حکومتوں میں ملک کے معاشی حالات ابتر ہو جاتے ہیں لیکن اب یہ مفروضہ مکمل طور پر درست نہیں ہے ۔
پہلی مرتبہ پاکستان میں ایسا جمہوری وقفہ ملا ہے ، جس میں جمہوری حکومتیں تسلسل کے ساتھ کام کررہی ہیں ۔ اگرچہ بہت سی رکاوٹیں بھی پید اہوئی ہیں لیکن جمہوری حکومتوں کو گرایا نہیں جا سکا ۔ پاکستان کی تاریخ میں اب تک طویل ترین جمہوری وقفہ 1988 ء سے 1999 ء تک ملا تھا مگر ان 11سالوں میں چار مرتبہ جمہوری حکومتوں کا ان کی آئینی مدت سے پہلے تختہ الٹ دیا گیا ۔ اس طرح کوئی بھی حکومت صحیح طریقے سے کام نہ کر سکی ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک میں سیاسی غیر یقینی کی کیفیت تھی ۔ رواں جمہوری وقفہ اگرچہ 9سال پر محیط ہے لیکن اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس وقفے میں کوششوں کے باوجود کسی بھی جمہوری حکومت کو گرایا نہیں جا سکا ۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہ صرف ایک جمہوری حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی بلکہ دوسری جمہوری حکومت کو پر امن انتقال اقتدار بھی ہوا ۔ 2018 کے عام انتخابات کا پر امن انعقاد ہو جائے اور تیسری جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل ہو جائے تو پاکستان یہ سنگ میل عبور کرنے کے بعد ایک نئے عہد میں داخل ہو جائے گا ، جس کے وسیع تر امکانات ہیں ۔
آمرانہ حکومتوں میں معاشی استحکام اور شرح نمو میں اضافے کے تین بنیادی اسباب تھے ۔ ایک سبب تو یہ تھا کہ سیاسی بے یقینی نہیں تھی ۔ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ جاتی تھی کہ ان حکمرانوں کو اس وقت تک کوئی نہیں ہٹا سکتا ، جب تک وہ خود نہ چلے جائیں ۔ اس کے برعکس سیاسی حکومتوں میں غیر یقینی کی کیفیت رہی ۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ پاکستان کی تمام آمر حکومتوں کے دور میں بڑے پیمانے پر غیر ملکی امداد ملی ۔ یہ امداد دفاعی اور غیر دفاعی دونوں شعبوں میں تھی ۔ ایوب خان کے دور میں پاکستان امریکہ اور اس کے حواریوں کے عالمی فوجی اتحادوں سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن یعنی سینٹو ( Cento ) اور ساؤتھ ایسٹ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن یعنی سیٹو (Seato) کا رکن بنا اور کمیونسٹ بلاک کے مقابلے میں عالمی سرمایہ دار ممالک کی فرنٹ اسٹیٹ کا کردار ادا کیا ۔ اسی عرصے میں پاکستان کی بڑی فوج بنائی گئی ۔ سینٹو اور سیٹو کے رکن کی حیثیت سے پاکستان کو بہت زیادہ غیر ملکی امداد ملی اور پاکستان کی معاشی حالت قدرے بہتر ہوئی ۔ اسی طرح جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کو سوویت یونین کے خلاف امریکہ اور اس کے حواریوں کی افغان جنگ میں جھونک دیا اور پاکستان میں ڈالرز کی برسات ہو گئی ۔ پاکستان کے دور دراز قبائلی علاقوں میں ڈالرز کاروبار ہوتا تھا ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں بھی پاکستان نے اپنا کردار ادا کیا اور خاطر خواہ فوجی غیر فوجی امداد حاصل کی ۔ آمر حکومتوں میں معیشت کے بہتر ہونے کا تیسرا سبب یہ تھا کہ ان ادوار میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں تھی اور حکومتی پالیسیوں پر مکمل عمل درآمد ہوتا تھا ۔ جن اسباب کی بناپرآمرانہ حکومتوں میں معاشی استحکام پیدا ہوا یا معاشی اشاریے بہتر ہوئے ، وہ اسباب معیشت کی ترقی کے لئے مستقل بنیادیں فراہم نہ کر سکے۔ ایوب خان کے دور میں اگرچہ صنعت کاری ہوئی لیکن ملک میں سیاسی تضادات اس قدر گہرے ہو گئے کہ ایوب خان کے خلاف ایک بہت بڑی سیاسی تحریک کا آغاز ہوا بلکہ معاملات اس قدر خراب ہوئے کہ پاکستان دولخت ہو گیا ۔ جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار نے ملک کو بدامنی ، انتشار اور دہشت گردی میں جکڑ دیا ۔ غیر جمہوری حکومتوں میں وقتی طور پر جو سیاسی بے یقینی نہیں تھی ، وہ سیاسی عدم استحکام اور انتشار میں تبدیل ہو گئی ۔ آمرانہ حکومتوں کے درمیان جمہوری حکومتوں کو جو وقفہ میسر آیا ، وہ اسی انتشار ، بدامنی اور عدم استحکام کا وقفہ تھا اور پاکستان کی اتحادی عالمی طاقتیں بھی پاکستان میں جمہوریت کے حق میں نہیں تھیں ۔ سیاسی اور جمہوری حکومتوں نے بھی اس وقفہ کو موقع غنیمت تصور کیا اور انہوں نے اچھی حکمرانی اور مالیاتی انتظام پر توجہ نہ دی ۔ اس وقت صورت حال بالکل مختلف ہے ۔ اس مرتبہ جو جمہوری وقفہ میسر آیا ہے ، اس میں پہلی دفعہ سیاسی بے یقینی کا عنصر قدرے کم ہے ۔ ہماری اجتماعی قومی دانش کو اس بات کا بھی ادراک ہونے لگا ہے کہ معیشت کی پائیدار ترقی جمہوریت کے استحکام سے جڑی ہوئی ہے۔
عالمی طاقتوں کے مفادات کی جنگوں میں الجھے رہنے سے معیشت ترقی نہیں کرتی ۔ صرف جمہوری حکومتیں ہی عالمی سازشوں میں آلہ کار بننے کی مجبوری سے ملک کو نکال سکتی ہیں ۔ موجودہ جمہوری وقفے میں اگرچہ سیاسی حکومتوں نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور ان پر کرپشن کے بھی الزامات ہیں لیکن عوام تک معاشی ثمرات پہنچے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ احتساب کا نظام پہلی مرتبہ اس ملک میں تشکیل پذیر ہو رہا ہے ۔ سیاسی جماعتوں خصوصاً اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کا حکومتوں پر دباؤ ہوتا ہے ۔ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا نے بھی کرپشن کے خلاف آگہی پیدا کی ہے اور احتساب کرنے والے ادارے پہلے کی طرح خاموش نہیں بیٹھ سکتے ۔ غیر جمہوری حکومتوں میں یہ سب کچھ ممکن نہیں تھا ۔ اس 9سالہ جمہوری وقفے میں معیشت پائیدار بنیادوں پر استوار ہو رہی ہے ۔ جمہوریت کو پہلی مرتبہ موقع ملا ہے ۔ اس لئے سابقہ مفروضوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ جمہوری استحکام کے ساتھ پاک چین اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کا منصوبہ بھی مکمل ہوجاتا ہے تو وہ وقت دور نہیں ، جب پاکستان کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ، پرامن اور خوش حال ممالک میں ہو گا ۔ سی پیک کی وجہ سے پاکستان کے خلاف سازشیں بہت ہو رہی ہیں ۔ پاکستان کے دشمن ہمارے ملک کو جمہوریت کی پٹری سے اتارنے کی کوشش کریں گے ۔ یہ ہماری قومی سیاسی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ ان سازشوں کو کس طرح ناکام بناتے ہیں ۔ غیر جمہوری حکومتوں کے وقتی معاشی استحکام سے جمہوری حکومتوں کی سست رفتار معاشی ترقی زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس سے کسی بڑی تباہی یا خونریزی کا خطرہ نہیں ہوتا۔



.
تازہ ترین