• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند دن ہوئے اداکار ندیم کا ایک انٹرویو میری نظر سے گزرا جس میں وہ کہتا ہے ’’… اب اگر انڈیا کی ہر نئی فلم یہاں (پاکستان) آجاتی ہے اور بلاجھجک ہر گھر میں دیکھی اور پسند کی جاتی ہے تو ایسے ہی ہماری فلمیں ادھر (بھارت) کیوں نہیں جاسکتیں۔ اور پھر کیوں نہ ہم ان کے ساتھ مل کر فلمیں بنائیں اور ان کی مارکیٹ سے فائدہ اٹھائیں۔ یہ ٹھیک ہے ہمارے مقابلے میں ان کے کام میں تھوڑا ستھرا پن ہے اس کی بڑی وجہ میرے نزدیک انڈیا میں تعلیم کا عام ہونا ہے ہمارے ہاں بھی تعلیم ہے تو سہی لیکن اتنی نہیں جتنی ایک فلم میکر میں ہونی چاہئے اور فلم میکنگ ہے کام پڑھے لکھوں کا کیونکہ یہ ایک باقاعدہ آرٹ ہے اور اس میں جب تک آپ کا مختلف چیزوں کے بارے میں مطالعہ، مشاہدہ اور مقابلہ نہ ہو اس وقت تک پرفیکٹ فلم بنانا ہر کسی کے بس کا کام نہیں‘‘۔ آگے چل کر میرا یہ دیرینہ دوست ایک سوال کے جواب میں کہتا ہے۔ ’’یہ ایک اچھا طریقہ ہے اس سے ہماری فلمی صنعت کو فنانشل طور پر بھی سہارا ملے گا اس کے علاوہ جو لوگ ہمیں دیکھ دیکھ کر اکتا چکے ہیں ان کو دوسرے ملک (بھارت) سے نئے چہرے دیکھنے کو ملیں گے اور لوکیشن بھی نئی نئی دیکھنے کو ملیں گی کیونکہ یہاں کے عوام مری اور سوات کی وادیاں دیکھ دیکھ کر بور ہوچکے ہیں۔ آرٹ فلم کے بارے میں ندیم کا نقطہ نظر ہے ’’آرٹ فلم کے لئے ابھی تک ہمارے ملک میں ماحول نہیں بنا اور نہ ہی اس آرٹ فلم کو سراہنے کے لئے ابھی تک ہم نے اپنے عوام کو ذہنی طور پر تیارکیا ہے۔ ہم نے تو ابھی تک اپنے عوام کو صاف ستھری اچھی کمرشل فلم بناکر نہیں دی، آرٹ فلم کی بات قطعی ہی دوسری ہے‘‘۔
میرے حساب سے ندیم کی یہ نقطہ ہائے نظر بے حد حقیقت پسندانہ ہے۔ دونوں ملکوں یعنی پاکستان اور بھارت کے فلم میکرز کو آگے آنا چاہئے اور اس تناتنی کے ماحول میں اداکاروں، ہدایتکاروں، فلم سازوں اور شاعروں و ادیبوں کا فرض ہے کہ دونوں ملکوں میں دوستی کی داغ بیل ڈالیں، فلم ایک ایسا میڈیم ہے جس کے ذریعے دوستی کی فضا نہ صرف قائم بلکہ مضبوط کی جاسکتی ہے۔آج فلم میڈیم کے معنی بدل گئے ہیں، بدل رہے ہیں یا بدل دئیے گئے ہیں، نتیجتاً پاکستان فلم میکرز کےسامنے بھٹکنے جیسی کیفیت آگئی ہے جوفلم کو ایک اصلاح، تعمیر و ترقی صحت مند تفریح اور بے سہارا و کمزور افراد کی آواز بلند کرنے کا ذریعہ جان اور مان کر اس شعبہ میں آئے تھے اور آج تک مانتے چلے آرہے ہیں مگر یہ نوآموز تو اور بھی تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں جوفلم کے میدان میں کچھ نیا کرنے آئے تھے مگر کر کچھ اور رہے ہیں۔ ’’جیسا کہ ہم جانتے ہیں تقسیم ہند کے وقت ہندوستان فلم انڈسٹری کا بہترین ٹیلنٹ TALENT پاکستان چلا آیا تھا، جس میں شوکت حسین رضوی، ضیا سرحدی، خورشید انور، اجمل اسماعیل، علائو الدین، فضلی برادران، ماسٹر غلام حیدر، فیروز نظامی، چارلی، شاہ نواز، نجم الحسن، لالہ یعقوب، ظہو، شمیم، نینا، گیتا نظامی، نورجہاں، ممتاز شانتی وغیرہ شامل تھے۔ مگر پاکستان جسے ہم مملکت خداداد کہتے ہیں میں ان تمام کا جادو محض اس لئے سر چڑھ کر نہ بول سکا کہ حکومت وقت نے فلم انڈسری کی بے جا سرپرستی شروع کردی، جب حکومت اپنے اقتدار کا سنگھاسن بجانے کے لئے دشمنیاں پال لے تو فائدے کی بجائے نقصانات کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ پاکستان کی حکومت نے بھارت دشمنی میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگادی یا عائد کردی۔ حکومت کے اس غیرضروری اقدام سے مقابلے کا رجحان ختم ہوگیا۔یہ تو آپ جانتے ہی ہیں جہاں مقابلے کے لئے کوئی فریق ہنکارہ نہ بھرلے وہاں اچھے اچھوں کی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے۔ اس زمانے میں پاکستانی فلموں کا مقابلہ بھارتی فلموں سے تھا کہ دونوں ملکوں کے کلچر و ثقافت اور زبان مشترکہ ہے اور آج میری پیڑھی کے لوگ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ جن دنوں پاکستان میں بھارتی فلمیں ریلیز ہوتی تھیں ان دنوں ہماری فلموں کا معیار قدرے بلند تھا پھر جب حکومت پاکستان نے ’’دشمن‘‘ ملک بھارت کی فلموں پر پابندی لگادی تو پاکستانی فلمی صنعت میں صحت مندانہ مقابلہ ختم ہوگیا اور پاکستانی فلمساز و ہدایتکار غیرمعیاری اور لچر فلمیں بناکر مطمئن ہوگئے اور عوام بے چارے انہی پر اکتفا کرنے لگے کہ ان کے پاس دوسرا کوئی راستہ ہی نہ تھا جب بری بری فلمیں بننے لگیں تو اچھی فلمیں بنانے کے لئے کون درد سر مول لے، جب عوام بری فلموں سے ہی مطمئن ہوجائیں تو اچھی فلمیں بنانے کی طرف کسی کا دھیان کیوں جائے گا یہی وجہ ہے کہ آج پاکستانی فلم انڈسٹری ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ تاریخ نے انڈسٹری سے بدترین انتقام لیا ہے۔ اس ضمن میں جب فلم انڈسٹری شدید بحران کا شکار ہونے چلی تھی میرے کچھ فلمی دوست جن میں ریاض شاہد، علی سفیان آفاقی، حسن طارق، شباب کیرانوی، آغا طالش، علائو الدین، سدھیر، سلطان راہی، کیمرہ مین نبی احمد، کامران مرزا اور فاضل، ایڈیٹر رحمت علی وغیرہ کا خیال تھا کہ اگر بھارتی فلموں کی نمائش شروع ہوگئی تو پاکستانی فلم انڈسٹری بحران کا شکار ہوجائے گی۔ اب اس کا کیا علاج کہ بھارتی فلموں کی نمائش کے بغیر بھی پاکستانی فلم صنعت ٹھپ ہوگئی ہے۔ فلم کا کمرشلی کامیاب یا ناکام ہونا ایک مختلف بحث طلب موضوع ہے اچھی فلم ہر مارکیٹ میں اپنی جگہ بناتی ہے۔ کیا بھارت میں بڑی فلمیں ناکام نہیں ہوتیں؟ کیا ہالی ووڈ کی ہر فلم کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیتی ہے؟ اگر فلم اچھی ہے تو اسے دنیا کے ہر کونے میں سرپرستی ملے گی۔ ہاں البتہ مملکت خداداد، کشور حسین، ملک شادباد کی بات وکھری ہے۔
میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچئے…
حد ادب کی بات تھی حد ادب میں رہ گئی
اس نے کہا کہ میں چلا میں نے کہا کہ جائیے



.
تازہ ترین