• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
٭٭٭٭٭
پس چہ باید کرد!
کنٹرول لائن اور افغان سرحد پر شیلنگ، افغان سرحد کو بھی کنٹرول لائن میں شامل کر لو ،جنگ سمٹ جاتی ہے جنگیں جو جنگوں میں ملیں ۔کیا آج ایک آزاد عظیم تر افغانستان کا وجود ہے جو ہم افغان حکومت کو کوئی الزام دے سکیں، افغانستان میں بھارت، سنٹر فورسز اور امریکہ بہادر برادر افغان بھائیوں کو اسکیپ گوٹ بنا کر ہم سے کبھی کنٹرول لائن پر کبھی پاک افغان سرحد پر چھیڑ خوانی کر رہے ہیں، ہم کیوں افغان بھائیوں کے بارے بدگمان ہو رہے ہیں، ایسے تو کوئی حالات نہیں، ہماری خارجہ پالیسی میں سب کچھ ہے تدبر نہیں یہاں تک اس وزارت کا کوئی وزیر نہیں، کہ افغانستان میں اپنے اثر کو قائم کر سکے، البتہ ایسے اقدامات ہو رہے ہیں کہ افغان عوام ہم سے مزید دور ہو جائیں، بدظن ہو جائیں یہ وقت ہے افغانستان کو پنجۂ اغیار سے چھڑانے کا، یہ جو کنٹرول لائن اور افغان سرحد پر ہو رہا ہے کیا ہمیں یقین ہے کہ یہ افغان کر رہے ہیں، یہ ڈمی افغان حکومت جو مجبور محض ہے استعمال ہو رہی ہے بیرونی قوتوں کے ذریعے ہمارے خلاف افغانستان جب تک ماضی کا افغانستان تھا ہمیں افغان سرحد سے ٹھنڈی ہوا آتی رہی، ہم افغانوں کو اقبالؒ کے نظریاتی تناظر میں کیوں نہیں دیکھتے، وہ ہمارے بھائی ہیں جنہیں یرغمال بنا رکھا ہے، پاکستان افغانستان کے دشمنوں نے اپنے افغان بھائیوں کی مجبوریوں کو سمجھنے اور انہیں سینے سے لگانے کی ضرورت ہے، مگر ہم تو اپنے معمولی فیصلے کرتے وقت یقین کے مقام پر نہیں ہوتے چہ جائیکہ افغانستان کو پھر سے افغانستان بنانے کے لئے کچھ کر سکیں۔
٭٭٭٭
اب تک کا فیصلہ ہے
وزیر مملکت اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے:اب تک کا فیصلہ ہے، فائنل لاہور میں ہی ہو گا۔ ہمارے فیصلے ہوتے ضرور ہیں مگر ان کی عمر آج تک ہوتی ہے کل تک نہیں ہوتی، یہ تاثر حکمرانوں کا ظاہر کرتا ہے کہ رگِ حکمرانی میں کہیں کوئی ’’کلاٹ‘‘ آ گیا ہے، کہ خون کبھی جاری ہو جاتا ہے کبھی بند، اور دل ہے کہ دھڑکنوں میں وقفے ڈال رہا ہے، ایک پی ایس ایل کے فائنل کا فیصلہ ہی ’’اب تک‘‘ کے فارمولے کا شکار نہیں تقریباً ہر شعبے میں اب تک اب تک کی رٹ لگی ہوئی ہے، بیرون ملک پاکستانی بھی ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں اب کیا حال ہے جواب ملتا ہے، اب تک تو حال اچھا ہے، کل کی خدا جانے، آخر یہ اب تک، کب تک، جب تک کی چھاپ تال کب تک لگی رہے گی، ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ دشمنوں کو ہماری جانب سے کمزور پیغام نہیں جانے چاہئیں، قوت فیصلہ ہی کی اہلیت سے حکمرانوں کی اہلیت متعین ہوتی ہے، فیصلے سوچ سمجھ کر کرنا چاہئیں مگر اس قدر تاخیر سے نہیں کہ مدعی ہی نہ رہے، یا جذب و شوق یہاں تک کہ انتظار بھی فوت ہو جائے، ہماری رائے ہے کہ پی ایس ایل فائنل کا ہم اتنا شور کرچکے ہیں کہ اب یہ لاہور ہی میں ہو جانا چاہئے، کیا ہم یہ باور کرا رہے ہیں کہ ایک اسٹیڈیم کے اندر ایک کرکٹ میچ کو محفوظ بنانے بارے ہم بے یقینی کا شکار ہیں، اور یہ کہ تحفظ کی فراہمی کا فقدان ہے اس لئے یہ میچ نہیں ہو سکتا یا ہو سکتا ہے، کیا حکومتوں کے انداز اس طرح موم کی ناک ہوتے ہیں کہ کب کس سمت مڑ جائیں ہو گا یا نہیں ہو گا، اس سلسلے میں کیوں اپنی لڑکھڑاہٹ ظاہر کی جا رہی ہے، قدم جما کر اعلان کر دینا چاہئے ورنہ کہہ دیا جائے کہ ہم اس قابل نہیں کہ میچ کو فول پروف بنا سکیں۔
٭٭٭٭
ردالفساد کو ردالنثار سے جوڑ دیا؟
پی پی کے سیکرٹری اطلاعات مولا بخش چانڈیو کہتے ہیں۔ ’’ردالنثار‘‘ ہوتا تو ’’ردالفساد‘‘ کی ضرورت نہ ہوتی، وفاقی حکومت سیہون پہنچی درگاہ نہیں گئی، کیا اس ملک کا، یا سندھ میں پی پی حکومت کا مسئلہ فقط چوہدری نثار ہیں، کیا کسی فرد واحد کو نشانہ بنا کر وہ ملک کے عظیم تر مفاد کو لاحق خطرات سے نظریں ہٹانے کے لئے ایک عدد وفاقی وزیر پر قوم کی توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں، کیا چانڈیو ایسا کوئی وژن دے سکے ہیں جس میں فرد دشمنی کی جگہ ملک دشمنوں کا سدباب مضمر ہو؟ آصف علی زرداری اپنے وزراء کی بھی خبر لیں جو ان ہی کی منڈیر سے پاکستان پیپلز پارٹی کے کنگرے گرا رہے ہیں، جن کے لفظوں میں وژن یا حکمت و دانش کے بجائے صرف کنفیوژن پھیلانے کا زہر بھرا ہوتا ہے، چانڈیو، پی پی کا جو خوبصورت چہرہ سامنے لا رہے ہیں یا بنا رہے ہیں، اس کا یہ انجام نہ ہو؎
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
ایک ’’پی پی‘‘ ہے کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
٭٭٭٭
کیا ہم کلر بلائنڈ ہیں؟
....Oعمران خان:ہمارا راستہ روکنے کے لئے بلوچستان میں وفادار بیورو کریٹ لگایا گیا۔ خان صاحب بدگمانی کی دلدل سے نکلیں، اب اپنی پارٹی کی طرف توجہ دیں۔
....Oمشرف:پاکستان نے عالمی طاقتوں کے تعاون سے طالبان بنائے، بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی!
....Oٹیچرز یونین:اساتذہ سے سوتیلی ماں جیسا سلوک بند کیا جائے، طلبہ سے بھی اساتذہ سوتیلے بچوں جیسا سلوک بند کریں۔
....Oوزیراعظم کا لاہور میں پی ایس ایل فائنل کے لئے گرین سگنل، شاید ہم کلر بلائنڈ ہو چکے ہیں کہ سبز ہمیں لال نظر آتا ہے۔
٭٭٭٭


.
تازہ ترین