• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران خان سے اس بات کی توقع نہیں تھی۔ سیاست کے لیے اور بہت کچھ تھا جس پر مخالفت برائے مخالفت کی پالیسی اپنائی جا سکتی تھی۔ حکومت، کرکٹ بورڈ، وزیر اعظم نواز شریف یا نجم سیٹھی کے خلاف بولنے اور کہنے کے لیے خان صاحب کے پاس موضوعات کی کیا کمی تھی کہ انہوں نے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کی ایک بہت اچھی کوشش کو منفی سیاست کےنذر کر دیا۔ PSL کا فائنل پاکستان میں کروانے کے فیصلہ پر پوری قوم ایک تھی۔ کیا حکومت، کیا فوج، کیا عوام سب نے اسی خواہش کا اظہار کیا کہ PSL کا فائنل پاکستان میں ہی کھیلا جانا چاہیے اور اس کے لیے مکمل سیکیورٹی کے انتظامات کیے جائیں گے۔ افسوس کے اس فیصلہ کے خلاف سب سے پہلے کوئی آواز اٹھی تو وہ عمران خان کی جنہوں نے کہا فائنل پاکستان میں کروانا پاگل پن ہو گا۔ ویسے تو آصف علی زرداری صاحب نے بھی PSL فائنل لاہور میں کروانے کی اب مخالفت کر دی لیکن عمران خان کے کہنے کا بہت بُرا اثر اس لیے پڑا کیوں کہ وہ خود دنیائے کرکٹ کے ایک اسٹار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ خبروں کے مطابق کوئٹہ گلیڈئیٹرز سے تعلق رکھنے والے برطانوی کرکٹرکیون پیٹرسن نے پاکستان آکر فائنل کھیلنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کیسے لاہور آ کر کھیل سکتے ہیں جب عمران خان تک نے کہہ دیا کہ ایسا کرنا پاگل پن ہو گا۔ ایک ہفتہ قبل خان صاحب نے خود فرمایا تھا کہ اگر ور میں کروایا جاتا ہے اور اس میں دوسرے ملک کے کھلاڑی بھی شرکت کرتے ہیں تو یہ پاکستان کی کرکٹ کے لیے بہت اچھا ہو گا۔ دنوں میں ہی خان صاحب اپنے کہے سے پھر گئے اور اسی فیصلہ کی مخالفت کر دی۔ضرورت تو اس بات کی تھی کہ عمران خان دوسرے ممالک کے کرکٹرز کو حوصلہ دیتے کہ وہ پاکستان آ کر کھیلیں، اُن کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا لیکن خان صاحب نے الٹا جو آنا بھی چاہتا تھا انہیں بھی ڈرا کر بھگانے کی کوشش کی۔ نجم سیٹھی صاحب کا کہنا ہے کہ وہ فائنل تک پہنچے والی دونوں ٹیموں میں چار چار غیر ملکی کھلاڑیوں کو پاکستان لانے میں کامیاب ہو جائیں گے جس کے لیے اُن کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ خان صاحب سے بہتر بات تو اُن کے ایم این اے علی محمد خان نے کی جن کا کہنا تھا کہ وہ فائنل دیکھنے لاہور جائیں گے اور یہ بھی کہ ایسے معاملات کو سیاست سے بالاتر رکھنا چاہیے۔ جہاں تک زرداری صاحب کی بات ہے تو اُن کو تو اب اُن کی پارٹی کیا بلکہ اُن کے بچے serious نہیں لیتے۔ یہاں تک کہ بیٹیوں نے زرداری صاحب کی عرفان مروت سے ملاقات اور اُن کی پیپلز پارٹی میں ممکنہ شرکت کے خلاف ایسی پرزور آواز اٹھائی کہ زرداری سمیت سب پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔ سابق صدر اور پی پی پی چئیرپرسن کا تو یہ حال ہے کہ گزشتہ روز جب وہ حب کے مختصر دورے کے بعد واپس کراچی پہنچے تو ہیلی کاپٹر پر سے اتر کر پاس کھڑی گاڑی پر اُس وقت تک نہ بیٹھے جب تک کہ اُن کے لیےسرخ قالین بچھا نہ لی گئی۔ انہوں نے ہیلی کاپٹر سے اتر کر زمین پر قدم رکھنا پسند نہیں کیا جب تک کہ ریڈ کارپٹ بچھا نہ لی گئی۔ یہ حال ہے ہمارے سیاستدانوں کا۔ زرا کوئی زرداری صاحب سے پوچھے کہ جس زمین پر وہ بغیر قالین کے قدم رکھنا پسند نہیں کرتے وہاں کے رہنے والے اُن کی پارٹی کی حکمرانی میںکس حال میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ویسے حال تو دوسرے صوبوں کا بھی کوئی انتا اچھا نہیں لیکن سندھ کے حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں۔ اسلام آباد کی بات کریں تو نواز شریف صاحب کی حکومت کے خلاف ایک تازہ تازہ چارج شیٹ کسی اور نے نہیں بلکہ اُن کے اپنے منتخب کیے ہوئے صدر پاکستان جناب ممنون حسین نے جاری کی۔ صدر صاحب شکوہ کیا کہ سرکاری ملازمین کو کام کرنے کی عادت نہیں رہی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے قوم کے مختلف شعبوں میں حرام خوری کی عادت پڑ گئی ہے۔ صدر صاحب کا کہناتھا کہ انہوں نے پانی بجلی کے حکام کو اُن کے متعلقہ شعبوں کے سربراہان تبدیل کرنے کا کہا لیکن سنی ان سنی کر دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس بات کا افسوس ہے کہ اُن کی تجاویز پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوتا۔ صدر صاحب نے وزیر اعظم کا نام تو نہیں لیا لیکن اُن کی شکایت میاں صاحب اور اُن کی حکومت سے متعلق تھیں۔ اگر صدر ممنون حسین جیسا شخص (جو مکمل طور پر نواز شریف صاحب کی مہربانی کی بنا پر اس عہدے پر پہنچے) کی مایوسی کی یہ حالت ہے تو عوام کا کیا حال ہو گا۔ گویا چاہے عمران خان ہو، زرداری یا نواز شریف سبق یہ ہے کہ اُن سب سے گزارش یہ ہے کہ خدارا اپنی اپنی سیاست اور اپنے اپنے مفادات کی بجائے ملک کے مفاد اور عوام کی فلاح کے لیے کام کریں تاکہ عام پاکستانی کی حالت بدل سکے اور اُنہیں انصاف، معاشی تحفظ، خوشحالی اور سکون میسر ہو۔

.
تازہ ترین