• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حضرت علی ؓ کے ایک مشیر نے پوچھا امیرالمومنین ہمارے دور میں اتنی افراتفری اور جنگ وجدل کیوں ہے ۔حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓکے دور میں ایسا کیوں نہیں تھا ۔حضرت علی ؓنے فرمایا ہم اُن کے مشیر ہوتے تھے۔اب تم میرے مشیر ہو، تم بتائو۔ یہی بات ہمارے ملک میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نواز شریف اور پی پی پی کے آصف علی زرداری صاحبان کے دور میں دیکھنے میں آتی ہے؟دونوں جماعتوں کوجمہوری کہلانے والے ادوار میں کئی کئی مرتبہ اقتدار کے تخت سے اتارا گیا پھر قسمت نے یاوری کی، پھر عوام نے واپس لاکر بٹھا دیا ۔الزامات وہی کرپشن، نااہلی، اقرباپروری کے تھے ۔کسی نے بھی اس سے سبق حاصل نہیں کیا ۔ حتیٰ کہ ایک نے تو طویل عرصہ جیل میں بھی گزارا تو دوسرے نے طویل عرصہ جلا وطنی اور رسوائیوں کو گلے لگایا ۔ وہی دائیں بائیں نااہل وزرا ، دوست احباب ، رشتہ داروں کو نوازنے کی روایت برقرا ر رکھی اور ان ادوار میں کرپشن کے خوب ریکارڈ بنے ۔ بد قسمتی سے آج تک میاں محمد نواز شریف اپنی مدت اقتدار پوری نہیں کر سکے ، مگر سابق صدر زرداری کو یہ اعزاز حاصل ہے اوروہ واحد فرد ہوں گے ، جنہوں نے 5سال تمام اندرونی اور بیرونی دباؤ کے باوجود گزار ڈالے ۔ حالانکہ ان کے چاہنے والوں نے 4سال بعد ہی اگلی واری پھر زرداری کے نعرے بلند کرنے شروع کر دیئے تھے۔ مگر میاں صاحب کی عوامی الیکشن مہم اتنی زوردار تھی ، جو انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کےجھول کی وجہ سے میدان مار گئے۔ خصوصاً ان کا ٹارگٹ صرف پنجاب ہی تھا۔ جہاں ان کے مطلب کا قائم مقام وزیر اعلیٰ کا مبینہ کردار سب سے وکھرا ثابت ہوا۔ لاکھ عمران خان بلبلا کر پنکچر کا نام دے کر واویلا کر تے رہے، دھرنے بھی دیئے ، جلسے جلوسوں کا بھی سہارا لیا مگر نام نہاد الیکشن سسٹم کے سامنے ان کو ہتھیار ڈالنے پڑے ۔ البتہ اس شور و غل اور واویلے میں کئی طوفان آئے ۔ ایک مرتبہ تو مدت اقتدار قریب الختم تھی مگر قدرت مہربان تھی۔ لوگ کہتے ہیں کہ ماں کی دعائیں رنگ لائیںاور لندن یاترا بشمول بائی پاس بھی کروا ڈالااور پھر واپس آکر اقتدار کے تخت پر بیٹھ گئے۔ تاریخ سے سبق حاصل کرنے کے بجائے اب تو بڑے بڑے ہاتھ دکھانے لگے ، جو چند ادارے باقی رہ گئے تھے ان کو بھی فروخت کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔
دیکھتے ہیں قدرت کب تک مہربان رہتی ہے ۔ شاید اب یہ ناگہانی آفت ، قدرت نے خود ان کے اپنے ہی صاحبزادوں سے کہلوا کر اپنی ذمہ داری پوری کردی ، رہی سہی کسر قطری شہزادے نے رسید دے کر پورے پاکستانی عوام کو جگا دیا۔ عمران خان کا اس معاملے میں ستارہ جاگ گیا اور معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ گیا، اب عدلیہ نے فیصلہ کرنا ہے ۔ حکومتی وزرا کہتے ہیں کہ میاں صاحب مردِ بحران ہیں اور آج تک ان پر کرپشن کا ایک الزام بھی ثابت نہیں ہو سکا۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہو گا۔ ماضی میں کیا ہوا وہ سب کے سامنے ہے ، مگر اس مرتبہ عدلیہ کے تانے بانے خصوصاً جسٹس آصف کھوسہ اور جسٹس عظمت سعید کے ریمارکس عوام کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے میں کینیڈا کی برفباری سے لطف اندوز ی کے ساتھ ساتھ یہاں کی سیاست کو بھی واچ کر رہا ہوں ۔ قارئین ذرا غور فرمائیں ، کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نوجوان ہیں۔ ہر دلعزیز ترین، شریف النفس ، عوامی خدمت کے تمام بہترین ریکارڈ کے حامل ہیں۔ انتھک محنتی ہونے کے ساتھ ہر قوم و مذہب کے تہواروں ، خوشیوں اور غموں میں برابر شریک ہونے کا بھی سنہرا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ ان کے والد صاحب پائرے ٹروڈ و (Pierre Trudeau)بھی ماضی میں وزیر اعظم رہے ، یہ بھی شاندار ریکارڈ کے حامل تھے ۔ کوئی کرپشن کی جھلک بھی ان کے خاندان میں نہیں پائی جاتی ۔ مگر ہمارے لئے تو ایک معمولی بات ہے ۔ اس سال ان کو اپنی چھٹیاں گزارنے کے لئے ان کو اپنے والد کے پرانے خاندانی دوست سر کریم آغا خان نے اپنے بیہاماس کے ریزورٹ پر دعوت دی جو انہوں نے قبول کر لی اور سر کریم آغا خان نے اپنا ذاتی جہاز بھی بھیج دیا۔ مگر جب وہ چھٹیاں گزار کر واپس کینیڈا اپنی فیملی کے ساتھ پہنچے تو حزبِ اختلاف نے اسمبلی میں ان سے سوال کیا کہ جناب آپ کس قانون کے تحت سرکاری عہدہ رکھتے ہوئے اپنے دوست کے ریزورٹ پر ٹھہرے اور ان کا جہاز کیوں استعمال کیا۔ کیونکہ کینیڈا کے قانون کے تحت آپ کوئی تحفہ یا رعایت نہیں لے سکتے ، آپ جواب دیں۔ میڈیا اور اسمبلی میں انہوں نے معذرت اور دلیلیں پیش کیں ۔ اپنا اور سر آغا خان خاندان کا 70سالہ رشتہ جو ان کے والد صاحب جب خود وزیر اعظم تھے ثابت کرنے کے ثبوت پیش کئے جو نئی بات نہیں تھی۔ مگر اراکین اسمبلی ان کی اس غلطی کو معاف کرنے کے موڈ میں نظرنہیں آئے تو ان کا معاملہ کمیشن کے سپرد کر کے انکوائری کا حکم جاری کر دیا۔ اب اس ہر دلعزیز وزیر اعظم سنگل پارٹی حکومت چلانے والے کو اقلیتی حزبِ اختلاف کے کمیشن کے سامنے پیش ہو کر اپنی صفائیاں پیش کرنی پڑیں گی۔ اگر کمیشن ان کی پیش کردہ صفائیوں سے مطمئن نہیں ہوا تو پھر وہ اپنے فیصلے میں ان کے لئے سزا تجویز کرے گا۔ اس کو کہتے ہیں صاف و شفاف ٹرائل ۔ کینیڈا کے قانون کی نگاہ میں ایک شہری باشندہ اور ایک طاقتور ترین وزیر اعظم انصاف کے لئے برابر ہیں ۔ یہی قرآن کریم کا بھی فرمان ہے ۔مگر آج ہم اس کتا ب سے انحراف کر کے پستی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں ۔ اب ہماری عدلیہ پاناما لیکس کا کیا فیصلہ کرتی ہے ، وہ ہمارے مستقبل کی نشاندہی کرے گا۔



.
تازہ ترین