• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شکرالحمدللہ !پاکستان میں 5مارچ خیرخیریت سے گزر گیااور یونہی نہیں گزرا لاہور میں خصوصاً اور ملک میںعموماً کسی بھی جگہ اس روز دہشت گردی کے مہیب خطرات حکومت کے جرأت مندانہ فیصلے، اپوزیشن کے قومی جذبے، عوام اور میڈیا کی بھرپور تائیدوحمایت سے شادمانی،قومی یکجہتی اور دہشت گردی کا مل کر مقابلہ کرنے کی اجتماعی سوچ میں تبدیل ہو گئے۔پاکستان سپرلیگ کا فائنل پاکستان کے کرکٹ مرکز، لاہور میں کرانے کا فیصلہ جتنا پرخطر تھا سیکورٹی اداروں نے اتنی ہی ا سپرٹ سے اس چیلنج کو قبول کیا۔پی سی بی نے بھی اپنی ذمہ داری بھرپور قومی جذبے اور جرأت سے نبھائی اور ماضی کے باغی مزاج کڑوے لیفٹ،متنازع آرا میں شہرت رکھنے والے نجم سیٹھی بھی قذافی ا سٹیڈیم میں ’’چلو چلو لاہور چلو‘‘ کے بآواز بلند نعرے لگاتے پکے نیشنلسٹ معلوم دیئے۔گویا حق سر چڑھ کر بولا اور چڑیوں نے امن کے گیت بھی گائے۔
شیخ رشید جو حکومت پر تنقید میں عمران خاں اور علامہ طاہر القادری سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں، پی ایس ایل سے دو تین روز قبل تک حکومت پر تنقید کے تیر برسا رہے تھے لیکن شیخ صاحب پی ایس ایل میں شرکت کے لئے ریل کا عوامی سفر کرتے لاہور چلے آئے تو( ن) لیگ کے شیخ رشید نے انہیں خوش آمدید کے لئے گلدستہ بھجوایا جسے شیخ صاحب نے سعد رفیق کے شہید باپ کو یاد کرتے ہوئے قبول کیا۔شیخ صاحب نے عوامی انکلیوژر میں بیٹھ کر میچ دیکھا اور اپنے قومی جذبے اور عوامی مزاج کا بھرپور مظاہرہ کیا۔جناب سراج الحق نے بھی پی سی ایل کی بھرپور تائید کرکے اور اس میں شرکت کی حمایت سے قومی اتحاد کی تحریک کی یاد تازہ کر دی جب مکمل متضاد جماعتیں، ایک عظیم سیاسی مقصد’’ شفاف انتخاب‘‘ کے لئے متحد ہو گئی تھیں، اس مرتبہ قومی اتحاد، حکومت نہیں پاکستان کے افغانستان میں براجمان دشمن دہشت گردوں کے خلاف تھا جن کی سرپرستی ہمارے ’’مہربان ہمسائے‘‘ کر رہے ہیں۔ عمران خاں نے پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کرانے کا حکومتی فیصلہ (جو قومی فیصلے میں تبدیل ہو گیا) پر جو تنقید کی وہ اپنی جگہ دہشت گردی کے بڑے اور واضح خطرات کے جواز میں کی، لیکن یہ ان کی ثابت شدہ سیاسی جرأت، بطور کرکٹ ا سٹار قابل رشک پس منظر اور سب سے بڑھ کر واضح عوامی رائے خصوصاً لاہوریوں کی شہرہ آفاق زندہ دلی اور اجتماعی جرأت مندی سے متصادم تھی، تاہم اتنا ضرور ہوا کہ انہوں نے اپنے مؤقف میں شدت پیدا نہیں کی اور وہ خود اور ان کے ابلاغی مورچے کے ساتھی بھی دعاگو رہے کہ خدا کرے پی ایس ایل کا فائنل پرامن ماحول میں کامیاب ہو جائے،لہٰذا اس پر سیاست کی گنجائش نہیں، جیسے فائنل کے دوران گو نواز گو کے نعروں کی نہیں تھی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ پی ایس ایل کا قومی جذبے و جرأت سے بھرپور فائنل نے بہت کی بڑی قومی ضروریات کو پورا کیا۔اس میں غیر ملکی کھلاڑیوں کی شرکت ہم پاکستانیوں کے لئے بے حد حوصلہ افزا رہی جس پر ہم ان کے دل سے شکرگزار ہیں۔چینی ماہرین اور سفارتکاروں کی شرکت نے فائنل کو بین الاقوامی اہمیت دی اور چینیوں نے ہمیں جو مسلسل یقین دلایا ہے کہ وہ پاکستان کی سلامتی کی جدوجہد میں ہمارے ساتھ ہیں، اس کا عملی ثبوت انہوں نے بڑے مؤثر انداز میں قذافی اسٹیڈیم پہنچ کر دیا۔
یقین اور امید ہے کہ ہمارے جو ہمسائے ہماری دوستی، ہماری معصومیت،ہماری عظیم قربانیوں اور بے مثال صبر وتحمل اور مسلسل و طویل قومی برداشت کے باوجود دہشت گردوں کی پشت پناہی کا امن دشمن کھیل کھیلے جارہے ہیں انہیں بالآخر یہ یقین ہوگیا ہوگا کہ پاکستان ایک پرامن لیکن جرأت مندبکھری لیکن متحداور سخت جان قوم ہے۔ اس کی حکومت اور اپوزیشن سول اور افواج، مختلف علاقوں کے شہری دہشت گردی سے مسلسل لڑنے والی قوم ہے، جس میں وہ تھکی ہے نہ کوئی ڈھیر ہوئی بلکہ ہم نے اپنے اجتماعی مثالی قوی رویے سے کامیابی سے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا ہے اور کررہے ہیں۔ ہم اس سازش اور ان مکروہ ارادوں کو بھی خوب جانتے ہیں جو پاکستان پر دہشت گردی کے پے درپے بزدلانہ حملوں کا باعث ہیں۔ اس میں پاکستانی کرکٹ بھی بڑا ہدف جو ہمارا ذریعہ امن ہے۔
اب ہم سے زیادہ خود ان کے لئے بہتر ہوگا کہ وہ دہشت گردوں کی پشت پناہی اور پرورش ختم کریں۔ یہ ان اور ان کی نئی آنے والی نسلوں کے لئے بھی بہتر ہوگا۔
پاکستانی آج دہشت گردی کے خلاف اتنے ہی منظم، متحداور اس کی بیخ کنی کے لئے متفق ہیں جس طرح ہمارے بزرگ قیام پاکستان، آنے والی نسل اس کے دفاع، اسے ایٹمی طاقت بنانے پر تھی اور اب پاکستان کو کرپشن فری اور شفاف ا ور پرانصاف اسلامی جمہوریہ بنانے پر ہے جو خیر سے پی ایس ایل فائنل ہونے کے بعد اپوزیشن کی طرف سے مکمل بے رحمی اور عوام کی جانب سے مکمل عزم سے جاری و ساری رہے۔
پی ایس ایل سے جو کچھ ہم نے حاصل کیا وہ قومی یکجہتی عوامی اتحاد ، دہشت گردی کے خلاف ڈٹ جانے اور متحد ہو کر لڑنے کا قومی عزم ہے۔ یہ جتنا کامیاب رہا اور مؤثر، اس پر خاکسار تجویز دیتا ہے کہ 5مارچ کو حکومت اور تمام پارلیمانی جماعتیں آج سے قومی اسمبلی کے شروع ہونیوالے اجلاس میں زیر بحث لاکر5مارچ کو مستقلاً ’’یوم امن‘‘ قرار دے دیں۔ اس روز ملک میں قومی تعطیل ہو، اسلام آباد اور چاروں صوبائی صدر مقامات پر روٹیشن (باری باری)’’امن میلے‘‘ کا سالانہ انعقاد ہو جس میں پورے پاکستان اور دوست ممالک سے ثقافتی وفود، فنکار، علاقائی پکوان والے، دانشور، شاعروموسیقار شریک ہوں۔ یہ اتنا پرکشش ا ور پرجوش ہو کہ اس کے تمام میچز اتنے معنی خیز اور پراثر ہوں کہ پوری دنیا میں پاکستان کے یوم امن کی حقیقت کے حوالے سے اس کی پہچان ہونے لگے۔

.
تازہ ترین