• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اِسے آپ دیگ کا ایک دانہ اور آئس برگ کا چھوٹا سا ٹپ (Tip) سمجھیں۔ مسئلہ نہایت گمبھیر اور بنیادی سا ہے لیکن ہماری حکومتوں کی گورننس میں ترجیحات کے آخر میں جگہ پاتا ہے۔ چند روز قبل سینیٹ (Senate)میں ایک رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق ملک بھر میں دس ہزار واٹر سپلائی اسکیموں کا سروے کیا گیا۔ پانی فراہم کرنے کی ان اسکیموں میں سے 72فیصد غیر فعال پائی گئیں۔ مطلب یہ کہ ناکارہ تھیں اور آرام فرما رہی تھیں۔ 84 فیصد کا پانی مضر صحت قرار دیا گیا۔ صرف سولہ فیصد اسکیموں کا پانی پینے کے قابل پایا گیا۔ فرض کیجئے کہ پورے ملک میں عوام کو پانی سپلائی کرنے والی ایک لاکھ اسکیمیں ہیں جن سے پانچ کروڑ لوگ استفادہ کرتے ہیں یعنی پانی پیتے ہیں تو ان میں سے چار کروڑ بیس لاکھ لوگ مضر صحت پانی پی رہے ہیں اور اسی لاکھ وہ خوش قسمت ہیں جن کو صاف پانی نصیب ہو رہا ہے۔ اسی طرح کے ایک کیس کا سپریم کورٹ نے بھی نوٹس لے رکھا ہے۔ ہمارے بچپن اور جوانی میں تو پانی بازاروں میں بکنے کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ نلکے ہوں یا کنوئیں یا حکومتی واٹر سپلائی پانی مضر صحت نہیں ہوتا تھا۔ آپ بلا خوف و خطر ہر جگہ پانی پی سکتے تھے۔ گزشتہ چار دہائیوں سے اللہ پاک کی عطا کردہ نعمت پلاسٹک کی بوتلوں میں بکتی ہے اور اب تو صاف پانی اس قدر گمبھیر مسئلہ بن گیا ہے کہ ہر شخص (افورڈ کر سکے یا نہ کر سکے) صحت کی خاطر بازار سے پانی کی بوتلیں خریدنے پر مجبور ہے۔ حرص، ہوس اور بے حسی انسان کو اندھا کر دیتی ہے اور اس کے ضمیر کو دولت کی لوریاں سنا کر سلا دیتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے حکومتی کنٹرول کے فقدان سے فائدہ اٹھا کر سینکڑوں کمپنیاں بازار میں اتر آئی ہیں جو اپنا منرل واٹر فروخت کرنے کی دعوے دار ہیں۔ درجن بار بازار میں بکنے والے پانی کے سروے اور ٹیسٹ رپورٹیں اخبارات میں چھپ چکی ہیں جن سے یہ خوفناک خبریں ملتی ہیں کہ بازار میں بکنے والا 75فیصد پانی نہ صرف مضر صحت ہے بلکہ انسانی جسم میں مختلف قسم کی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ مطلب یہ کہ ہم جیب سے پیسے خرچ کر کے بازار سے بیماریاں خرید رہے ہیں۔ بیماریاں اس لئے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قدم قدم پہ بیماریاں بکتی ہیں جنہیں ہم بہ امر مجبوری خریدتے ہیں۔ مردہ جانوروں سے لے کر حرام جانوروں تک کا گوشت مارکیٹ میں بکتا ہے۔ اشیائے خوردنی ملاوٹ کا شاہکار ہوتی ہیں۔ دودھ میں پانی کے علاوہ بھی کچھ ایسے کیمیکلز ڈالے جاتے ہیں جو انسانی گردے تباہ کر دیتے ہیں۔ سبزیوں پر ایسے اسپرے کئے جاتے ہیں جو انسانی صحت کے دشمن ہیں۔ کچھ عرصہ قبل میں ایک ایسی ہی سبزی کھانے سے شدید بیمار ہوا اور یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ ابھی تک بقید حیات ہوں۔ اس سے میرے یقین میں اضافہ ہوا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے۔ دوائیوں میں ملاوٹ کے ساتھ جعلی (نمبر 2) دوائیوں کی بھرمار ہے۔ گزشتہ دنوں دل میں لگائے جانے والے غیر معیاری اسٹنٹ کا ذکر اخبارات میں ہو رہا تھا جبکہ کچھ عرصہ قبل پنجاب کے دل کے اسپتال میں جعلی دوائیوں کا اسکینڈل بے نقاب ہوا تھا۔ چند برس قبل ایف آئی اے نے دوائیاں بنانے والی ایک ایسی فیکٹری پکڑی تھی جو دریائے راوی کے کنارے پر واقع تھی۔ ہم سمجھتے تھے کہ فیکٹری لگانے والوں نے قدرتی حسن سے لطف اندوز ہونے کے لئے اس جگہ کا انتخاب کیا ہے لیکن ایف آئی اے کے چھاپے نے اس کا بھانڈہ پھوڑ دیا اور یہ خبر سن کر ہمیں خوفزدہ کر دیا کہ اس فیکٹری کے ٹیکوں میں راوی کا پانی بھرا جا رہا تھا۔ اسی طرح کی چند ایک فیکٹریاں شیخوپورہ روڈ پر پکڑی گئیں جن کی خبریں پڑھنے کے بعد میں قدرت کے اس معجزے کی داد دیتا رہا کہ پاکستان کے عوام مضر صحت پانی، ملاوٹ شدہ اشیائے خورو نوش اور جعلی دوائیوں کے استعمال کے باوجود نہ صرف ابھی تک زندہ ہیں بلکہ ہر لمحے آبادی میں اضافہ بھی کر رہے ہیں۔ میں نے جعلی دوائیوں اور ملاوٹ پر گزشتہ دس بارہ برسوں میں کئی کالم لکھے۔ مجال ہے جو حکومت کے کان پر جوں رینگی ہو۔ اس سے جہاں کالم نگاری کا بھرم مجھ پر فاش ہوا وہاں ان قارئین پر بھی ترس آیا جو سمجھتے ہیں کہ لفظوں کے لکھے سے حکومتی پالیسی یا کارکردگی پر اثر پڑتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ بعد از خرابی بسیار منرل واٹر پینے والے اور اعلیٰ قسم کی غذا کھا کر بیرون ملک علاج کروانے والے حکمرانوں کو رعایا کا تھوڑا سا خیال آیا ہے اور حکومتی مشینری ملاوٹ کے خلاف حرکت میں آئی ہے لیکن ایک بات میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جعل ساز مافیاز ہماری زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہیں اور اُن کی جعل سازی کے مقابلے میں حکومتی کارروائی یا کارکردگی بہت کم ہے۔ مطلب یہ کہ چیلنج بہت بڑا ہے اور اس کا جواب بہت کم ہے۔
سچ یہ ہے کہ ہم سیاسی تجزیات اور بالائی باتوں پر تبصروں میں مصروف رہتے ہیں اور اُن مسائل کو اہمیت نہیں دیتے جو ہر لمحے ہمارے شہریوں کو زخم لگا رہے ہیں۔ دانشور پہاڑوں سے نیچے اترنے کو تیار نہیں اور منافع خور حکومتی کمزوریوں، رشوت اور انتظامی بے حسی سے فائدہ اٹھا کر تجوریاں بھرنے اور بیماریاں بانٹنے میں مصروف ہیں۔ حکومتی ٹیمیں ملاوٹی اشیاء، مضر صحت پانی اور جعلی دوائیوں کے خلاف چند شہروں کے مخصوص علاقوں میں تو کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہیں جبکہ ان انسان دشمن کارروائیوں کا دائرہ شہروں قصبوں سے لے کر دیہات تک پھیلا ہوا ہے جہاں حکومتی نگرانی کا سایہ تک موجود نہیں۔
لکھنے کو اس خوفناک اور گمبھیر مسئلے پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں لیکن یہ سعی لاحاصل ہے۔ میں جب صوبائی حکومتوں کے سولر انرجی کے دعوے سنتا ہوں اور پڑھتا ہوں کہ ہزاروں اسکولوں اور سرکاری دفاتر میں سولر انرجی فراہم کی جا رہی ہے تو میری آنکھوں کے سامنے جی ٹی روڈ پر آباد وہ کئی قصبے پھرنے لگتے ہیں جہاں تین چار برس قبل جی ٹی روڈ پر سولر انرجی سے سڑکیں روشن کی گئی تھیں اور اب ایک سال سے وہاں تاریکی کا راج ہے۔سولر انرجی خراب ہو چکی ہے اور مرمت یا قائم رکھنے Maintenanceکا کوئی نظام ہی موجود نہیں۔ یہی ضیاع ہم پنجاب سیکرٹریٹ کے بعض شعبوں میں بھی دیکھ چکے ہیں۔ سولر انرجی کو قائم رکھنا (Maintain)مشکل اور مہنگا سودا ہے۔ ہماری حکومتی کارکردگی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم منصوبے بنا بھی لیتے ہیں اور لگا بھی لیتے ہیں لیکن قائم نہیں رکھ سکتے، ان کی نگرانی نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارا نظام کمزور اور لُولا لنگڑا ہے۔
مختصر یہ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہریوں کی صحت ہوس زر، کرپشن، جعل سازی، ملاوٹ اور حکومتی نا اہلی و کرپشن کی زد میں ہے۔ ایک طرف دولت کی ہوس نے ہمارے مافیاز کو اندھا کر رکھا ہے تو دوسری طرف کرپٹ اور کمزور حکومتی مشینری ان خطرات سے نبٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ ان حالات میں ہمارا خدا ہی حافظ ہے اور ہمارا صحت مند رہنا ایک معجزہ ہی ہے۔

.
تازہ ترین