• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1995کی ایک شام یاد آگئی ۔استادنصرت فتح علی خاں کے سیکرٹری حاجی اقبال نقیبی مجھے دیوانہ وار ڈھونڈرہے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں روزنامہ جنگ لاہور سے وابستہ تھا اور شوبز کے میدان کا ’’زلمی فیم ‘‘ رپورٹر سمجھا تھا۔ ثقافتی صحافتی خدمات سرانجام دیتے ہوئے بہت سے فنکاروں سے میل ملاقات کا موقع ملا۔ جن فنکاروں سے میرے دوستانہ مراسم استوار ہوئے استاد نصرت فتح علی خاں ان میں سرفہرست تھے۔ حاجی نقیبی کو استاد نصرت کا مشیر ِخاص سمجھا جاتاتھا ،وہ میڈیا کے معاملات بھی سنبھالتے تھے اس طرح جیسے ایک عرصہ سے شہبازشریف اور نوازشریف کے لئے بالترتیب میرے بزرگوار شعیب بن عزیز اور پرویز رشید اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔استادنصرت کے ہاں لاہورمیں ان کی رہائش گاہ ماڈل ٹاون پہنچا تو وہ خاصے پریشان تھے ۔مجھے یاد ہے استاد نصرت کے سامنے میز پرایک اخبار پڑا تھا جس میں انہیں بلیک میل کرنے کے لئے ایک اسٹوری شائع کی گئی تھی ۔چند ہی منٹوں میں مجھے اس ’’نیوز گیٹ اسکینڈل ‘‘ کے اغراض ومقاصد سمجھ آگئے۔ وقوعہ یہ تھاکہ استاد نصرت سے بلامعاوضہ پرفارمنس کا تقاضا کیاگیاتھاوہ اپنی مصروفیات کے باعث شرکت نہ کرسکے تو اسکینڈل بنا دیاگیا۔استاد نصرت کی خواہش پر میں نے انہیں اس نیوز اسکینڈل کی زد سے محفوظ رہنے کی پلاننگ کردی ۔پلان کے مطابق استاد نصرت اور عمران خان سے ایک مشترکہ پریس کانفرنس بھی کرائی گئی جو واپڈا ہائوس کے پہلو میں واقع ریستوران میں منعقد ہوئی تھی۔عمران خان کا گلیمراس وقت تک سیاسی کی بجائی فلاحی ہوا کرتاتھا ،خان صاحب نے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرکے روٹھے ہوئے میڈیا کو منا لیااور اس طرح انکی گلوخلاصی ہوئی ۔
جب سے ہمارے ہاں پھٹیچراور ریلوکٹے جیسی اصطلاحات کا غلغلہ مچا ہے مجھے استادنصرت یاد آرہے ہیں۔استاد نصرت کوتوعمران خان نے اپنے اثر ورسوخ سے بچالیاتھا،اب عمران کو کون بچائے گا؟ حامدمیرکو انٹرویودیتے ہوئے کپتان نے وضاحت کی ہے کہ پھٹیچراور ریلوکٹے کے علاوہ فوکر،جیٹ اورچپ سمیت دیگر اصطلاحات بھی لاہورکی کرکٹ میں رائج رہی ہیں۔ کپتان نے یہ نہیں بتایاکہ سرفراز نواز ،جاوید میانداد ،ظہیرعباس اور خود ان کے لئے کونسی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔ البتہ ایک دوسرے انٹرویو میں عمران نے بتایاتھاکہ کیرئیر کے آغاز میں ان پر بھی ’’چٹی مولی ‘‘کی آوازیں لگائی گئی تھیں۔ کپتان نے کہا کہ انہوں نے لاہوری کرکٹ کی اصطلاحات کی روشنی میں PSL کھیلنے کیلئے آئے ہوئے غیر ملکی کھلاڑیوں کی کارکردگی کو محض عنوان دیاہے۔ یہ ایک علمی ،ادبی اور فنی بحث ہے اسے چند واقعات سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ لتامنگیشکر نے مہدی حسن سے پوچھاکہ آپ کا مکیش کی گائیکی کے متعلق کیاخیال ہے ؟مہدی حسن نے اپنے مخصوص انداز میں جواب دیاکہ ’’مکیش بے سُرے اور کوڑھ ہیں‘‘۔کوڑھ خالصتاََ موسیقی کی اصطلاح ہے جس سے مراد نااہل اور نالائق ہے۔بھارت سمیت پاکستان میں بھی مجھ سمیت لاکھوں لوگ مکیش کے گیتوں پر سر دھنتے ہیں۔شومین راج کپور نے ہمیشہ اپنے لئے مکیش کی آوازکو منتخب کیامگر مہدی حسن کے نزدیک مکیش سریلے نہیں تھے۔اسی طرح ایک مرتبہ میں نے استادنصرت فتح علی سے سوال کیاتھاکہ آپ کے نزدیک دنیا کی سب سے سریلی آواز کس کی ہے؟استاد نصرت نے جواب دیا تھا ان کے نزدیک مہدی حسن دنیا کی سب سے سریلی آواز کے مالک ہیں۔ایک اور مثال ملاحظہ کیجئے یوٹیوب پر استادبڑے غلام علی خاں کا انٹرویوموجود ہے ۔جس میں وہ مختلف راگوں کی آمیزش سے تیارکردہ میوزک جسے ’’مشیر میل‘‘ کہاجاتاہے اسے’’پاپ‘‘(گناہ) قرار دے رہے ہیں۔استاد بڑے غلام علی کے مقدمہ کے مطابق تو فلمی موسیقی جائز نہیں رہتی۔اگر اسے درست تسلیم کرلیاجائے تو لتامنگیشکر،ملکہ ترنم نورجہاں ،مہدی حسن ،محمد رفیع اور کشورکمارجیسے میوزک لیجنڈ دائرہ موسیقی سے خارج ہوکر نااہل قرار پاتے ہیں۔موسیقی سے شعر ی دنیا میں قدم رکھیں تو غالب کے خیالات زریں میرتقی میر اور حالی کے بارے میں ایک جیسے تونہیں تھے۔ موسیقی ہویاکرکٹ اس میں صلاحیتوں کا تعین کرنے کا اصول ناقد کے ذاتی فنی قد سے بھی موسوم ہوتاہے۔درجہ بالا تمہیدغیر ِ دل ِپذیر اسلئے باندھنا پڑی کہ عمران خان کو شک کی گنجائش دی جاسکے کہ انہوں نے پھٹیچر اور ریلوکٹے کی اصطلاح خالصتاََ مہمان کرکٹرزکی صلاحیتوں کی بنا پر استعمال کی ۔انہوں نے گھر آئے مہمانوں کی دل شکنی دانستہ نہیں کی۔کپتان سے معذرت کے ساتھ بطور کرکٹر جب انہوں نے اپنے کیرئیر کاآغاز کیاتھا وہ بھی ریلوکٹاٹائپ کرکٹر ہی تھے ۔زبردست محنت اور جنون کے بعد وہ ریلوکٹے سے ترقی کرکے فوکر ،جیٹ اور پھر ایف سولہ بن گئے۔
کپتان کو یاد ہوگا لاہور کے ایک صاحب ثروت ریلوکٹاصاحب جوقیمے والے نان ،ہڑیسے اور سری پائے جیسی ڈشیزمنتظمین کو کھلاکر ٹیم میں شامل ہوئے اور بعدازاں ’’آل ٹائم آل رائونڈر ‘‘قرار پا ئے اور آج تک کریز پران کاا سٹارڈم ماند نہیں پڑرہا۔کرکٹ کے میدان کے ریلوکٹے تو ایک نہ ایک دن ایکسپوژ ہوجاتے ہیں لیکن سیاست کے ریلوکٹے کبھی آئوٹ نہیں ہوتے ۔وہ اقتدار کے گرائونڈ پر ففٹیاں اور سنچریاں بناتے ہوئے ہیٹرک کرنے کے بعد ناقابل تسخیر ہوجاتے ہیں۔ اس شک کا اظہار بلاول بھٹو اور آصف زرداری نے کیاہے لیکن عمران خان اور شیخ رشید کہتے ہیں کہ ریلوکٹوں کی باری آگئی ہے۔ریلوکٹوںاور پھٹیچروں کو سیاست کے گرائونڈ میں اتارنے والے ’’کیری پیکروں‘‘ کا کہنا ہے کہ وہ آنے والے وقت میںبعض گھرانوں کو گوشہ گمنامی میں جاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔وطن عزیز کو اسی قسم کے ’’پی ایس ایل‘‘ سے ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے ۔سیاست اور اقتدار کے سنجیدہ معاملات کو کھیل تماشہ بنا کر عوامی حمایت یافتہ کھلاڑیوں کو یلوکارڈ دکھا کر باہر نکالاگیااور ان کی جگہ اپنی نرسریوں سے تربیت یافتہ پھٹیچروں اور ریلوکٹوں کو شامل کیاگیا۔دہشت گردی کے جس طویل ٹورنامنٹ کا قوم کو سامنا کرنا پڑرہاہے وہ اسی کھیل کا نتیجہ ہے جو کیری پیکروں نے شروع کیاتھا۔ جس طرح بوتل والا جن ،بوتل سے باہر تو آجاتاہے لیکن اسے دوبارہ قیدکرنا آسان نہیں ہوتا۔اسی طرح کرپشن کے جنات کو بوتل میں قیدکرنا مشکل دکھائی دے رہاہے۔غالب نے اس ٹریجڈی کویوں بیان کیاتھاکہ
ناکامی نگاہ ہے برق ِنظارہ سُوز
تو وہ نہیں کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی

.
تازہ ترین