• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی بھی قوم کی خارجہ پالیسی اُس کے قومی مفادات اور اعلیٰ قومی آدرشوں کی عکاس ہوتی ہے، یہ پالیسی اگر جامد نہیں ہونی چاہئے تو موم کی ناک جیسی بھی نہیں ہونی چاہئے بلکہ اس میں استحکام و پائیداری کی جھلک کے ساتھ بدلتے عالمی و علاقائی حالات کے ساتھ ہم آہنگی کی صلاحیت دکھائی دینی چاہئے۔ وطنِ عزیز کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہمیں بہت سی شکایات رہی ہیں، اسے دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم میں شاید ہنوز اقوامِ عالم کے دوش بدوش چلنے کی اہلیت کا فقدان ہے۔ مسئلہ کشمیر ہی کو لے لیں جسے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور خیال کیا جاتا ہے لیکن دنیا میں کتنے ممالک ہیں جو اس حوالے سے ہمارے قومی موقف کے ہم نوا ہیں؟
اس پسِ منظر میں کیا ہماری خارجہ پالیسی کا یہ تقاضا نہیں تھا کہ اقوامِ عالم میں بھی ہم اس مسئلے کو اسی طرح اجاگر کرتے جس پھُرتی اور چابکدستی کے ساتھ ہم اپنے اہلِ وطن کو متاثر کرتے ہوئے انہیں غم و غصے کی آخری حد تک لے جاتے ہیں۔ آج وطنِ عزیز کے تمام اہل دانش یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ خدانخواستہ اگر آج ہمیں کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی سپورٹ درکار ہو تو سوائے شرمساری کے کچھ حاصل نہ ہو سکے گا۔ دشمن تو دشمن، اس وقت ہمیں اپنے اُن برادر دوست ممالک کی حمایت بھی حاصل نہیں ہے جن سے آئیڈیل تعلقات کے نعرے لگاتے ہمارے گلے خشک نہیں ہوتے۔ کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑنے والا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جب ہمارے سب سے قریبی اور برادر ملک میں پہنچتا ہے تو بجائے مظالم پر کسی احتجاجی ریلی کے، اس کا ایک عالمی ہیرو کی حیثیت سے استقبال کیا جاتا ہے۔ برادر ملک کا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ اس کی نذر کیا جاتا ہے اس کے بعد وہ دوسرے، تیسرے اور چوتھے برادر ملک پدھارتا ہے تو وہاں بھی اُس کے سواگت میں نہ صرف دیدہ و دل فرش راہ کیے جاتے ہیں بلکہ باہمی تعلقات کو بلندیوں تک لے جانے والے تجارتی و ترقیاتی منصوبوں کے معاہدے کیے جاتے ہیں۔
ہماری ہمیشہ سے یہ تمنا رہی ہے کہ جنوبی ایشیا نہ صرف یہ کہ امن و سلامتی کا گہوارہ بنے بلکہ اس خطے کے باسی ترقی و خوشحالی سے بھی ہمکنار ہوں اس مقصد کے لئے سارک کا قیام خطے کی قیادت کا انتہائی مثبت اقدام تھا جس سے غربت و افلاس کی شکار دنیا کی قریباً نصف آبادی کے لئے نئی امیدیں بندھی تھیں۔ سارک کی تعمیری کاوشیں تجارتی و ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھیں کہ یکایک شدت پسندی نے اتنا زور پکڑا جس سے اعتدال اور بھائی چارے کی سوچ رکھنے والوں کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ ہماری نظر میں اس ترقی معکوس کا ذمہ دار یا قصور وار کسی ایک ملک کو قرار دینا مناسب نہیں ہو گا بلکہ تمام ممالک میں تعمیری کے ساتھ ساتھ تخریبی قوتیں بھی موجود ہیں۔ ایشو یہ ہے کہ تخریبی کی بجائے تعمیری قوتوں کو حاوی ہونا چاہئے جس کی کوئی صورت بن نہیں پا رہی اور آج نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ بنگلہ دیش جیسے قریبی ملک کے ساتھ ہمارے تعلقات پستی کی کھائی میں گرے پڑے ہیں۔ بنگالی بھائیوں کے ساتھ ہماری تلخ یادوں کے ساتھ بہت سی شیریں یادیں بھی وابستہ ہیں۔ متحدہ ہندوستان میں ہم نے غیر ملکی اقتدار کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرتے ہوئے آزادی حاصل کی تھی پھر ہم پون صدی تک ایک قوم کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر موجود رہے اور ہمیں یہ ماننے میں قطعی حجاب نہیں ہونا چاہئے کہ جن لوگوں نے قرارداد (لاہور) پاکستان پیش کی تھی جنہوں نے آزادی کے لئے قائد کا بھرپور ساتھ دیا تھا، حسین شہید سہروردی جیسے نابغہ عصر اور عظیم رہنما کو بھی ہم نے زیادتیوں اور مایوسیوں کے سوا کچھ نہ دیا۔ بعض عاقبت نااندیشوں نے بنگالی بھائیوں کے ساتھ مظالم بھی روا رکھے۔ 1970میں ہم نے منصفانہ الیکشن ضرور کروائے لیکن اس سے زیادہ شرمناک بات کیا ہو سکتی ہے کہ بنگالی بھائیوں کی جیت کو بھی ہم نے استبدادی طاقت سے ہار میں بدل ڈالا۔ جس لیڈر نے تین سو کے ہاؤس میں 162سیٹیں جیتی تھیں اس کے بالمقابل محض 81سیٹیں لینے والے کو کھڑے کر دیا۔ جیتنے والوں کو جیلوں میں ڈال دیا۔ یہ طوفان جیسے تیسے بھی گزرا بالآخر ہم نے دو قومی نظریہ کو پس پشت ڈالتے ہوئے بنگلہ دیش کو ایک آزاد خود مختار برادر مسلم ملک کی حیثیت سے تسلیم کر لیا تو یہ موقع تھا کہ اس کے بعد ہم اپنے بنگالی بھائیوں کے زخموں پر مرہم لگاتے اور کم ازکم اپنی زیادتیوں پر معافی کے ہی خواستگار ہوتے مگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔
ان دنوں ڈھاکہ میں سارک ممالک کے پارلیمانی وفود کی کانفرنس منعقد ہونے جا رہی تھی یہ بہترین موقع تھا کہ ہماری قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق اپنے باوقار وفد کے ساتھ اس میں شرکت کرتے۔ کم از کم ایک نوع کی تشفی تو ہو جاتی، ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع تو بن رہا تھا لیکن افسوس ہم نے اس مثبت موقع کو بھی ضائع کر دیا۔ کہا گیا کہ وہ بھی تو اسلام آباد کی سارک کانفرنس میں نہیں آئے تھے ہمارا سوال یہ ہے کہ اس میں تو بھارت اور افغانستان بھی نہیں آئے تھے لیکن اس کے بعد کیا ہم امرتسر کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے؟ سرتاج عزیز صاحب نہ صرف وہاں گئے بلکہ پوری دنیا نے ہمارے اس اقدام کو سراہا تھا۔ اگر اس نوع کی ناراضی کے باوجود ہم امرتسر جا سکتے ہیں تو ڈھاکہ کیوں نہیں؟
ہم نے اپنے بھائیوں کو جب یوںہی دور کیا تو لازم بات ہے پھر انڈیا نے اس خلا کو بھرا نتیجتاً حسینہ واجد وزیراعظم بنگلہ دیش اب جب بھارت گئی ہیں تو حسبِ سابق اُن کا والہانہ استقبال کیا گیا ہے اور ان کے ساتھ ٹرین سے لے کر تجارتی معاہدوں تک تعلقات کے نئے دور کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ افغانستان کے حوالے سے ہے۔ ہم کیوں نہیں سوچتے کہ پاکستان میں اگر بیس کروڑ مسلمان بستے ہیں تو اتنے ہی مسلمان بھارت میں بھی آباد ہیں اور بنگلہ دیش میں بھی۔ اور یہ سب جنوبی ایشیا میں صدیوں سے آباد ہیں آج اگر ہمارے سیاسی مفادات و خلفشار نے ہم سب کو آپس میں کاٹ کر الگ تھلگ کر دیا ہے کیا ان کروڑوں مسلمانوں کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ بھائیوں کی طرح ایک دوسرے کو اپنا قریبی خیال کریں۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک میں منافرتیں دور کئے اور بہتر تعلقات استوار کئے بغیر یہ دوریاں قربتوں میں کیسے بدل سکتی ہیں؟ ہماری خارجہ پالیسی تشکیل دینے والوں کو اس سوال پر ضرور غور کرنا چاہئے۔

.
تازہ ترین