• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک نجی چینل کا نعرہ ہے’’قوم، ملک، سلطنت‘‘قوم ابھی بننے کے مراحل میں ہے، آدھا ملک بنگلہ دیش کہلاتا اور اس مودی کے ساتھ جپھیاں ڈالتا ہے جس کے نام میں ’’د‘‘ پہ نقطہ ڈال دیاجائے تو اس سے تعارف مکمل ہو جاتا ہے..... ’’موذی‘‘ ٭٭٭٭٭کئی سال پہلے کہیں کوئی سیانا ملا تھا۔ اس نے کہا تھا ’’تم پاکستانی دن رات اپنے قومی ترانہ میں ’’سایہ خدائے ذوالجلال‘‘ کو یاد کرتے ہو نتیجتاً تم لوگوں کو مسلسل اس کے جلال کا سامنا ہے اس لئے اللہ توفیق د ے تو ’’سایہ خدائے ذوالکمال‘‘ آزما کر دیکھو‘‘۔ ٭٭٭٭٭عام زندگی میں ان پڑھ، گنوار، جاہل، اجڈ، گیا گزرا آدمی بھی اپنی سے بڑی، زیادہ عمر کے آدمی کو عزت احترام سے بلاتا ہے مثلاً بھاجی، بھائی صاحب، چاچا جی، انکل، بابا جی، بزرگو وغیرہ مگر ہماری سیاست کچھ ایسی نجاست ہے کہ لونڈے لپاٹے توتکار کرتے اور لونڈیاں لپاٹیاں بھی باپ کی عمر کے لوگوں کو بوائے فرینڈ سمجھ کر مخاطب کرتی ہیں۔٭٭٭٭٭میں کئی بار یہ لکھ بول چکا کہ ’’جعلی کلیموں‘‘ سے ’’کیریئر‘‘ کا آغاز کرنے والوں نے جعلی ڈگریوں تک ہی پہنچنا تھا سو ان کی تربیت بہت بڑا چیلنج ہوگی۔ اک تازہ ترین خبر نے میرا یہ زخم تازہ کر کے میرے ہوش اڑا دیئے اور خبر یہ ہے کہ لاہور جیسے شہر کی گارڈن ٹائون جیسی پوش اور نامی گرامی بستی کا قیام پاکستان سے اب تک سارا ریکارڈ ہی بوگس ہے جس کے نتیجہ میں محکمہ مال نے گارڈن ٹائون میں 79کنال اور 4مرلہ اراضی کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی ہے۔ تفصیل کے مطابق 1953ء میں کرنل (ر) حامد حسن خان کو یہ الاٹمنٹ بوگس دستاویزات پر کی گئی تھی۔ وہ اس کے مالک نہیں بلکہ ملکیت متروکہ بورڈ کی ہے۔ چیف سیٹلمنٹ کمشنر نے ڈپٹی کمشنر لاہور کو حکم دیا کہ اس زمین کو فوری واگزار کرا کے اعلیٰ سطحی کمیٹی کے ذریعہ نیلام کیا جائے۔ ممکن ہے عام آدمی کیلئے یہ ایک عام سی خبر ہو لیکن میرے نزدیک یہ کسی طلسم ہو شربا سے کم نہیں جس کے اندر لاکھوں خبریں چھپی ہوئی ہیں جنہیں صرف تیسری آنکھ سے دیکھا اور معاشرہ کو بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔٭٭٭٭٭انصاف کی تلاش میں عمر عمر بھر در در دھکے کھانے والوں کی اطلاع کیلئے چند روح فرسا حقائق+اعداد و شمار یہ ہیں کہ پنجاب کی ماتحت عدلیہ میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز اور سول ججز کی مجموعی طور پر 672آسامیاں خالی ہیں جبکہ مقدمات کی تعداد 12لاکھ 42ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ ہر جج کے پاس مجموعی طور پر اوسطاً 768کیسز التوا کا شکار ہیں۔ وکلا نے آسامیوں کی تعداد (672)کو بڑھانے کا بجا مطالبہ کیا ہے۔ چیف جسٹس منصور علی شاہ نے ججز کی کمی کو شفاف طریقہ سے پورا کرنے کیلئے اقدامات شروع کردیئے ہیں۔ پی آئی اے، ریلوے، سٹیل مل وغیرہ میں اندھا دھند بلاجواز نوکریاں بانٹ کر ان اداروں کا ستیاناس کردیا لیکن ’’سستا اور فوری انصاف‘‘ ’’دہلیزوں‘‘ پر مہیا کرنے والوں کا دھیان کبھی اس ’’میزان عدل‘‘ کی طرف نہیں گیا جس کے پلڑے ہی پورے نہیں۔٭٭٭٭٭صولت مرزا، عزیر بلوچ اور شری کلبھوشن یادیو جیسے لوگ جب تک پکڑے نہیں جاتے، شکنجے میں نہیں آتے تب تک خود کو کتنا سمارٹ، چالاک، ہشیار اور کامیاب سمجھ کر من ہی من میں کتنا اتراتے ہوں گے۔ ہر مجرم اور چور کی یہی نفسیات ہوتی ہے۔ اسے ’’ات خدا دا ویر‘‘ یا ’’سو دن چور دا تے ایک دن سادھ دا‘‘ جیسے محاورے لطیفے لگتے ہوں گے۔ ’’رب کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں‘‘ سے لیکر قدرت کی رسی دراز ہونے کا مطلب بھی انہیں سمجھ نہیں آتا ہوگا لیکن جب پکڑ میں آجاتے ہیں تو چہرے بگڑ جاتے ہیں جیسے کچھ سیاسی چہرے بھی بگڑے ہوئے ہیں۔٭٭٭٭٭پاناما کے حوالہ سے سپریم کورٹ کا کہنا ہے ’’فیصلہ صدیوں یاد رہے گا‘‘ واقعی صدیوں تک یاد رکھے جانے والے فیصلے ہی قوموں کی تقدیروں کا فیصلہ کرتے ہیں۔ سچ کہا کہ ’’پاناما کیس ایک شخص نہیں قانون کا معاملہ ہے‘‘ اور قانون کسی بھی معاشرہ میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت و اہمیت کا درجہ رکھتا ہے اور جس جسم کی ریڑھ کی ہڈی فریکچر ہو جائے وہ بتدریج مرحلہ وار مکمل طور پر فریکچر ہو جاتا ہے۔ ناکام اور کامیاب معاشروں میں فیصلہ کن فرق ہی قانون کے ہونے نہ ہونے کا ہوتا ہے۔ اسی لئے مہذب ملکوں میں لینڈ کرتے ہی غیر مہذب لوگوں کے طور طریقے بھی بدل جاتے ہیں اور یہی حقیقی تبدیلی کہلاتی ہے۔٭٭٭٭٭عمران خان کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ پاناما کیس کا ٹھیکیدار نہ بنے جبکہ سچ یہ کہ تاریخ کب سے یہ ٹھیکہ اس کے نام لکھ چکی۔ یہ ٹھیکے دار نہ ہوتا تو کب کا ڈکار گئے ہوتے۔ خواجہ آصف نے پاناما کے آغاز پر ’’درست‘‘ کہا تھا کہ لوگ چند دنوں میں یہ معاملہ بھول جائیں گے لیکن پھر ایک سرپھرا ٹھیکے دار آگیا اوراسے گھسیٹ کر وہاں تک لے گیا جہاں اسے پہنچنا چاہئے تھا۔ صرف فیصلہ ہی نہیں یہ پورا کیس ہماری تاریخ میں صدیوں یاد رکھا جائے گا، ہماری سمت کا تعین کر دے گا۔قیام پاکستان..... سقوط ڈھاکہ...... بھٹو کی پھانسی...... اور پاناما کیس کا فیصلہ کہ باقی سب ’’خالی جگہیں پر کرو‘‘ والا معاملہ ہے۔

.
تازہ ترین