• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی کوالیفائڈ طبی عملے کا فقدان اور ادویات کی نایابی یقیناً ایک سنگین مسئلہ ہے لیکن ان اسپتالوں میں حفظان صحت کے اقدامات بھی ناگفتہ بہ ہیں۔ اسپتال ہوں یا دیہی مراکز صحت، کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں چوہوں، بلیوں اور حشرات الارض کی بہتات نہ ہو۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال مظفر گڑھ کے چلڈرن وارڈمیں اگلے روز خونخوار بلیوں نے نوزائیدہ بچی کے ہاتھ کی انگلیاں چبا ڈالیں اور ایک بچے کے بازو کو پنجے مار کر زخمی کرڈالا۔ ادھر پشاور میں چوہوں کی بہتات انتظامیہ کے لئے درد سر بنی ہوئی ہے یہاں تک کہ پارلیمنٹ ہائوس بھی چوہوں سے محفوظ نہیں۔ ہوٹل ہوں یا ریستوران کوئی شہر ایسا نہیں جہاں باورچی خانوں میں چوہے بلیاں نہ ہوں۔ سرکاری اسپتالوں میں مریض ایک مرض کا علاج کرانے جاتا ہے تو کوئی دوسرا مرض اپنے ساتھ لے کر گھر آتا ہے۔ استعمال شدہ سرنجوں کا استعمال ہیپاٹائٹس کا موجب بن رہا ہے صبح کو سرکاری اسپتالوں میں حکام کے رائونڈ کے وقت عملہ صفائی متحرک دکھائی دیتا ہے لیکن انہی مقامات پر شام کے وقت غلاظت اور کوڑے کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔ ان شفا خانوں کے واش رومز تعفن سے بھرے ہوتے ہیں۔ پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی ممنوع ہے لیکن اسپتال اور مراکز صحت اس سے محفوظ نہیں۔ بیشتر سرکاری اسپتالوں اور ڈسپنسریوں میں ڈیوٹی پر متعین عملہ حفظان صحت کے تحت فراہم کردہ لباس پہننے سے عاری دکھائی دیتا ہے۔ دیہی مراکز صحت کی چار دیواریوں میں تو پالتو جانور بھی بندھے دکھائی دیتے ہیں۔ صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ صحت و صفائی ،علاج معالجہ کیلئے اپنے بجٹ میں جہاں ضرورت پڑے اضافہ کریں اور محکمہ صحت کے حکام اسپتالوں اور ڈسپنسریوں میں چاردیواری کی تعمیر سے لے کر دروازے، کھڑکیاں اور دیگر ضروریات صحت و صفائی کا خاص خیال رکھیں مربوط پروگرام کے تحت وہ تمام اقدامات کئے جائیں جو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ضروری ہوں۔

.
تازہ ترین