• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چھوٹے موٹے سانحات کی بات چھوڑیئے۔ آپ غور کریں تو محسوس کریں گے کہ ہمارے ساتھ بحیثیت قوم جو سب سے بڑا سانحہ اور ٹریجڈی ہوئی ہے وہ ہے ہماری نگاہوں کے سامنے سچ کا بے رحمانہ قتل سیاست، تجارت، تعلیم، مذہب حتیٰ کہ زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے شعبے پہ نظر ڈال لیں تو آپ کو تجربہ ہو گا کہ ہماری قومی اور نجی زندگی کے اکثر شعبوں سے سچ کو دیس نکالا دیا جا چکا ہے۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے جیسے جھوٹ کا مرض ہم پر اس قدر حاوری ہو چکا ہے کہ شاید اب جھوٹ بولنے پر ضمیر میں ہلکی سی کسک بھی پیدا نہیں ہوتی۔ لیڈران، حکمران، علماء، اساتذہ اور دانشور معاشرے کے رول ماڈل سمجھے جاتے ہیں۔ ذرا غور کیجئے کیا آپ کو ان شعبوں میں کہیں سچ کی روشنی نظر آتی ہے؟ عوام نقال ہوتے ہیں جب رول ماڈلز جھوٹ کی مثالیں بن جائیں تو عوام کے اخلاقی زوال کو روکنا خاصی حد تک ناممکن ہوتا ہے۔ چھوٹی سی تعداد جو اس سیلاب میں رہ کر اپنا دامن جھوٹ سے گیلا نہیں ہونے دیتی، وہ خوف خدا، احساس جوابدہی اور گھریلو تربیت کے سبب سچ کا دامن تھامے رکھتی ہے ورنہ طوفانی ہوائوں کا رخ بڑے بڑے تناور درختوں کو اکھیڑ دیتا ہے۔ اگر آپ گزشتہ پندرہ سولہ برس کے دوران دیئے گئے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے بیانات اکٹھے کر کے چھاپ دیں تو جہاں آپ کو عملی جھوٹ کی معتبر ترین کتاب مل جائے گی وہاں کبھی کبھار مسکرانے اور محظوظ ہونے کا سامان بھی میسر آ جائے گا۔ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے، چھ ماہ، ایک سال، دو سال تک پھیلتے گئے۔ آج کل جب دس بارہ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ برداشت کرنی پڑتی ہے تو ایک حکمران کا یہ بیان یاد کر کے میری ہنسی چھوٹ جاتی ہے حضور نے جوش خطابت میں چند ہفتے قبل ہی یہ بیان داغا ہے کہ اگلے سال اتنی بجلی پیدا ہو گی کہ ہم اسے مودی کو بھی برآمد کریں گے۔ یہ وہی حضرت ہیں جو چھ ماہ، پھر ایک سال پھر دو سال تک لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا اس قدر جوش سے اعلان فرماتے تھے کہ کرائے پر لائے گئے سامعین کے ساتھ بیٹھے عام شہری بھی تالی بجانے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ تعلیم، صحت اور انصاف کے شعبوں کو جس طرح جھوٹ کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے ان کا ذکر کر کے طبیعت کو مکدر کرنے کا کیا فائدہ؟ رشوت ختم کرنے کے دعوے کرنے والے حکمرانوں کو علم ہی نہیں کہ کسی بھی سرکاری محکمے میں رشوت دیئے بغیر کام نہیں ہوتا۔ پولیس کا یونیفارم بدلنے سے فقط کرپشن اور نااہلی کا رنگ بدلا ہے ورنہ عقوبت خانے بھی وہی ہیں، حوالاتوں میں اموات بذریعہ ٹارچر بھی اسی قدر ہیں اور جعلی پولیس مقابلے بھی روز بروز ترقی پا رہے ہیں۔ اس فضا میں گزشتہ دنوں ایک معروف مذہبی اسکالر کی غیر ملکی فنڈنگ اور نائو نوش کے قصے میڈیا پر ظاہر ہوئے تو نہ کوئی صدمہ ہوا اور نہ ہی حیرت مغربی ممالک میں جنسی آزادی اور بے راہروی پر ہم سب تنقید کرتے ہیں اور یہ تنقید جائز ہے لیکن ان ممالک میں نہ آپ کو جعلی ادویات ملیں گی، نہ اشیائے خورو نوش میں ملاوٹ، نہ تعلیم کے شعبے میں جعل سازیاں۔ بلاشبہ کام چور، دھوکے باز، جھوٹے اور جعل ساز وہاں بھی ہیں لیکن اول تو وہ پولیس اور قانون کے شکنجے سے زیادہ عرصے تک بچ نہیں سکتے دوم اُن کی تعداد بہت کم ہے۔
ہمارے ہاں وفاداری کے نام پر اس قدر جھوٹ بولا جاتا ہے کہ اس کلچر نے ایک نئی کلاس کو جنم دے دیا ہے جسے آپ آسانی سے تابع مہمل کہہ سکتے ہیں۔ تابع مہمل وہ ہوتا ہے جو اپنے ضمیر اور ذہن کو مفادات کی چٹان تلے دبا کر اپنے آقا کے ہر غلط کام، لوٹ مار، اقربا پروری، جرائم کی سرپرستی وغیرہ وغیرہ کا اس طرح دفاع کرے جیسے یہ سب کچھ جھوٹ ہے۔ سیاسی آقائوں کے وہ باعث شرم کارنامے جنہیں وقت نے ثابت کر دیا ہو وہ بھی اُس کی نظروں سے اوجھل ہوں۔ رات کو ٹی وی چینلوں سے گزرتے ہوئے میں تابع مہمل حضرات کی ذہانت کی بھی داد دیتا ہوں اور ضمیر خان کی وفات پر انا للہ بھی پڑھتا ہوں۔ جھوٹ کے اس کلچر کو فروغ دے کر ہم نوجوان نسلوں کی کیا تربیت کر رہے ہیں؟ اس سانحے پر تبصرے کی نہیں بلکہ تعزیت کی ضرورت ہے۔
رہا تعلیم و تحقیق کا مقدس میدان تو ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کو بھی علم ہو گا اور ڈاکٹر مختار احمد کو بھی کہ ریسرچ کے نام پر ملک میں کچھ مافیاز نشو و نما پا رہے ہیں جو ایچ ای سی کے منظور شدہ جرائد پر حاوی ہیں۔ ان جرائد میں کسی سچے ریسرچ اسکالر کا مضمون اس وقت تک نہیں چھپ سکتا جب تک ان حضرات کے نام مصنّفین میں شامل نہ کئے جائیں۔ جامعات میں معیار تعلیم پستی کی حدوں کو چھو رہا ہے، نجی شعبے کی اکثر یونیورسٹیاں روپوں کی ٹکسالیں بن چکی ہیں اور معیار تعلیم کو قربان کر کے تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں۔ اس حوالے سے اپنے مشاہدات لکھنا شروع کروں تو آپ قوم کے مستقبل پر انا للہ پڑھنا شروع کر دیں گے۔ محض چند ادارے اس مرض سے محفوظ ہیں جن سے ہمارا بھرم قائم ہے۔
اسکالرز اور محققین کا رویہ ملاحظہ فرمایئے کہ ڈاکٹر مبارک علی نے قرارداد پاکستان کا مصنف سر ظفر اللہ خان کو قرار دے کر جھوٹ بولا کیونکہ خود سرظفر اللہ خان 25دسمبر 1981ء کو ولی خان کے حوالے سے اس کی تردید کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ دعویٰ کہ قرارداد پاکستان کو منانے کا سلسلہ قیام پاکستان کے کئی سال بعد شروع ہوا اُن کی لاعلمی کا شاہکار تھا۔ اس سے اُن کی تحقیق کے معیار کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ انہوں نے مجیب الرحمٰن شامی کے ساتھ ٹیلی وژن پروگرام میں لاکھوں ناظرین کے سامنے فرمایا کہ اگروہ 1945-46 کے انتخابات کے وقت دنیا میں موجود ہوتے تو قیام پاکستان کے خلاف ووٹ دیتے۔ یہی بات ہندوستان یاترا کے دوران الطاف حسین نے کہی تھی اور اب ان کے ’’را‘‘ سے تعلقات کا بھانڈا پھوٹ چکا ہے۔ رہے ولی خان تو وہ غفار خان کے فرزند ہونے کا قرض ادا کرتے رہے کیونکہ باچا خان کے سوانح نگار پیارے لال کے بقول جب کانگریس نے غفار خان سے بالا بالا تقسیم ہند کا منصوبہ منظور کر لیا تو باچا خان نے کہا تھا کہ ’’آپ نے ہمیں بھیڑیوں (Wolves)کے سپرد کر دیا ہے۔ ‘‘ باچا خان کو بہرحال یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے اس سرزمین میں دفن ہونے سے انکار کر دیا۔ اُن منافقین کو آپ کیا کہیں گے جو اس ملک کا نمک کھاتے اور اس کی مخالفت ببانگ دہل کرتے ہیں۔ حیرت ہے ان عالم و فاضل حضرات پر جو ان تمام حقائق کو جاننے کے باوجود ایسے عناصر کی تعریف اور خوشامد میں رطب اللسان رہتے ہیں۔ اتوار کے روزنامہ جنگ میں ایوب ملک کا خصوصی مراسلہ پڑھ کر میں سوچ رہا ہوں کیا پاکستان کی کانوں سے نکلنے والا نمک بے تاثیر ہو چکا ہے۔ سر ظفر اللہ خان نے قرارداد پاکستان سے تعلق کی 36برس قبل تردید کر دی تھی لیکن مراسلہ نگار مبارک علی کی محبت میں ابھی تک یہ کریڈٹ سر ظفر اللہ کو دینے پر بضد ہیں۔ غلطی کو تسلیم کرنے کے لئے حوصلے اور ظرف کی ضرورت ہوتی ہے۔
دوستو! چھوٹے موٹے حادثات اور سانحات کو چھوڑو۔ ہماری اصل ٹریجڈی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے سے سچ کا نور اٹھتا جا رہا ہے اور جھوٹ کی تاریکی پھیلتی جا رہی ہے۔

.
تازہ ترین