• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افغانستان کے شمالی صوبے بلخ کے صدر مقام مزار شریف کے فوجی اڈے پر جمعہ کے روز ہونے والے دہشت گرد حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد تادم تحریر دستیاب اطلاعات کے مطابق پونے دو سو تک جاپہنچی ہے جس سے اس کارروائی کی شدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔وزیر اعظم نواز شریف اور پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس دہشت گردی کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے افغانستان کی حکومت اور عوام سے مکمل یکجہتی اور دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے دونوں ملکوں کے درمیان سرگرم تعاون کی ضرورت کا اظہار کیا ہے جس کی اہمیت محتاج وضاحت نہیں۔ پاکستان کو بھی اس سال فروری کے مہینے میں پے در پے دہشت گردی کی کئی بڑی وارداتوں کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے آپریشن رَدُّا لفساد شروع کرنے کا فیصلہ کیا جو کامیابی سے جاری ہے تاہم اس آپریشن کے دوران جتنے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں عمل میں آرہی ہیں اور اسلحہ اور گولہ بارود کے ذخائر برآمد ہورہے ہیں، اس سے یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہے کہ پاکستان میں بھی دہشت گردی کے مکمل خاتمے لیے ابھی بہت کچھ کیا جانا ہے۔ دونوں ملکوں کو درپیش یہ صورت حال ناقابل تردید شواہد کے مطابق پچھلی چار پانچ دہائیوں کے دوران عالمی طاقتوں کی علاقائی پالیسیوں اور اقدامات کا نتیجہ ہے۔ افغانستان کو پچھلی صدی کے آخری عشروں سے مسلسل شدید بدامنی اور خوں ریزی سے سابقہ درپیش ہے۔ پہلے اس کا سبب سوویت یونین کی اس ملک میں فوجی مداخلت بنی جس کے خاتمے کیلئے امریکہ سمیت دنیا کے بہت سے ملکوں نے افغان عوام کی مسلح جدوجہد کا بھرپور ساتھ دیا۔اس کے نتیجے میں سوویت یونین کو افغانستان سے اپنی فوج واپس بلانی پڑی اور بالآخرخود سوویت یونین کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے بعد افغانستان کے پریشان حال عوام کو سوویت افواج سے لڑنے والی جہادی تنظیموں کے باہمی اختلافات اور اقتدار کی جنگ کے باعث خوں ریزی کی ایک نئی شکل کا سامنا کرنا پڑا جس سے نجات کی خاطر لوگوں نے قیام امن کیلئے اٹھنے والی نئی قوت تحریک طالبان کا ساتھ دیا اور ملک کے پچانوے فی صد حصے پر ان کی حکومت قائم ہوگئی۔ لیکن نئی صدی کے پہلے ہی سال میں نائن الیون کا سانحہ پیش آگیا جس کی ذمہ داری امریکی انتظامیہ نے القاعدہ پر عائد کی اور اس کے سربراہ کو پناہ دینے کی پاداش میں طالبان حکومت کے خاتمے کیلئے نیٹو ممالک کے تعاون سے افغانستان پر باقاعدہ فوج کشی کردی۔ عالمی برادری کے فیصلے کے سبب حکومت پاکستان نے بھی اس فوجی کارروائی میں تعاون کا فیصلہ کیا ۔ عام تاثر یہ تھا کہ طالبان کی مزاحمت بہت تھوڑی مدت میں دم توڑ جائے گی، ملک میں پائیدار امن قائم ہوجائیگا اور ایک منتخب حکومت افغانستان کے معاملات سنبھال لے گی جسے عالمی برادری کی مکمل تائید حاصل ہوگی اور یہ ملک تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ لیکن سولہ سال گزر جانے کے باوجود طالبان اور ان کے حامی گروپوں کی مزاحمت ختم تو کیا کمزور بھی نہیں کی جاسکی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ محض طاقت کے بل پر افغانستان میں امن کا قیام محال ہے اور مسئلے کے سیاسی حل کیلئے بھی مخلصانہ کوششیں ضروری ہیں۔ اوباما دور میں امریکی انتظامیہ چین اور پاکستان کے تعاون سے بھی اور براہ راست بھی قیام امن کیلئے طالبان رہنماؤں سے بات چیت کرتی رہی ہے۔ لیکن بعد میں اس معاملے میں امریکی انتظامیہ نے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا جس کی بنا پر روس، چین ، پاکستان ، ایران اور دیگر کئی علاقائی ملکوں نے اس مقصد کیلئے مشترکہ کوششیں شروع کیں جبکہ صدر غنی کی حکومت نے ایک اہم مزاحمتی لیڈر انجینئر گلبدین حکمت یار سے باقاعدہ مفاہمت بھی کی ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کی خاطر افغانستان اور پاکستان دیگر ممالک کے تعاون سے مسئلے کا سیاسی حل بھی پور ی سنجیدگی کے ساتھ تلاش کریں کیونکہ خوں ریزی کے لامحدود مدت تک جاری رہنے کی صورت میں خطے میں ترقی اور خوشحالی کے خواب کا پورا ہونا ممکن نہیں۔

.
تازہ ترین