• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہُندا نیں کرنا پیندا اے، عشق سمندر تَرنا پیندا اے، سُکھ لئی دُکھ جھلنا پیندا اے، حق دی خاطر لڑنا پیندا اے، تے جیون لئی مرنا پیندا اے۔
ابراہم لنکن نے اپنے دوست ولیم ہرن ڈان کو کمرے میں بلایا، دروازہ اندر سے لاک کیا اور اسے تقریر سنانا شروع کر دی، یہاں یہ بتانا ضروری کہ تقریر کی ریہرسل کرتے لنکن کی صدارتی الیکشن مہم کے نہ صرف یہ ابتدائی دن تھے اور نہ صرف ان دنوں امریکہ میں سیاہ فاموں کو کسی قسم کے کوئی حقوق حاصل تھے بلکہ یہی وہ دن تھے کہ جب امریکہ میں کالوں کے حقوق کی بات کرنے والا بھی قابلِ نفرت ہو جایا کرتا، خیر لنکن نے تقریر شروع کی تو بات پہلے ہی جملے پر اٹک گئی اور بات کیسے نہ اٹکتی کہ جب تقریر کا پہلا جملہ ہی یہ کہ ’’ہمارا نظام نہیں چل سکتا کیونکہ اس میں آدھے لوگ آزاد ہیں اور آدھے غلام‘‘ لنکن کا دوست بولا ’’آپ تقریر سے یہ فقرہ نکال دیں‘‘ ابراہم لنکن نے پوچھا ’’کیا یہ درست نہیں‘‘ دوست نے جواب دیا ’’یہ درست تو ہے مگر یہ وقت اس درست بات کا نہیں، آپ گوروں سے خطاب کرنے جا رہے، گورے آپ کے منہ سے یہ سن کر آپ کی حمایت سے دستبردار ہو سکتے ہیں، آپ کی مقبولیت میں کمی آ سکتی ہے اور یہ چیز آپ کے صدارتی الیکشن پر اثرانداز ہو سکتی ہے‘‘ پوری بات سن کر لنکن دوٹوک انداز میں بولا ’’میرے دوست … لیڈرز سچ بولنے کیلئے مناسب وقت کا انتظار نہیں کرتے، کوئی بات نہیں میری مقبولیت چاہے صفر ہو جائے اور چاہے میں الیکشن بھی ہار جاؤں لیکن میں سچ پر کوئی Compromise نہیں کروں گا‘‘ اور پھر لنکن نے جب ایک لفظ بدلے بنا یہ تقریر کی تو پورے امریکہ کے گورے بھڑک اُٹھے، احتجاج اور مظاہرے شروع ہوئے، لنکن سے معافی مانگنے کو کہا گیا اور اس کی مقبولیت کا گراف آسمان سے زمین پر آگرا مگر وہ ڈٹ گیا، آئے روز اپنا سچ دہرانے لگا اور آخرکار جب آہستہ آہستہ لوگوں کو بات سمجھ آنا شروع ہوئی تو نہ صرف لوگ لنکن کے ہمنوا ہوئے، اس کے Bold مؤقف کی تعریفیں شروع ہوئیں، اس کی مقبولیت پہلے سے بھی زیادہ ہوئی اور وہ الیکشن جیت گیا بلکہ اس کی تقریب حلف برداری وہ پہلی تقریب بنی کہ جس میں شرکت کر کے کالوں نے پہلی بار وائٹ ہاؤس میں قدم رکھا۔
دوستو! یہ امریکی نظام کی دیگ کا صرف ایک دانہ، اور بھی بہت کچھ اس دیگ میں، مگر ایک ہی دانہ چکھا کر بتانا صرف یہ تھا کہ ایک تو یہ ہے وہ مضبوط بنیاد کہ جس پر کھڑا امریکہ آج پوری دنیا پر راج کر رہا اور دوسرا جب لیڈرز Compromiseنہیں کرتے یا جب قیادت سچی ہو تو پھر خوشامد، ریاکاری، فراڈ، دو نمبری، چوری اور ڈاکوں میں پڑے بنا ملک ایسی ترقی کریں کہ سپر پاور ہو جائیں لیکن کہیں اگر صورتحال اس کے برعکس ہو تو پھر کیا ہو، یہ دیکھنے کیلئے اب ہم جھوٹ، فراڈ، راہزنیوں، ڈکیٹیوں اور نااہلیوں کی آگ پر گزشتہ 70سال سے پکتی اپنی’’مفاداتی بریانی‘‘سے بھی 2دانے چکھتے ہیں، ہم گزرے کل کے جھوٹوں کو ایک طرف اور آج کے پاناما اور ڈان لیکس کو دوسری طرف رکھ کر دو تین ماہ پہلے ایک ’’فائیو اسٹار ہولی‘‘کی تقریب سے خطاب کرتے وزیراعظم نواز شریف کی بات سنتے ہیں، وہ فرما رہے تھے کہ ’’میں مخالفین کو نہیں اللہ تعالیٰ کو جوابدہ اور مجھے یہ بھی معلوم کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے پوچھے گا کہ میرا مخلوقِ خدا کے ساتھ کیا سلوک‘‘اب یہیں رُ ک کر ذرا ایک نظر اس مخلوق پر کہ جس کی جوابدہی کی بات نواز شریف صاحب کر رہے تو حضورِ والا اس مخلوق کی حالت یہ ہو چکی کہ ابھی 5دن پہلے غربت اور فاقوں سے تنگ آئی ایک ماں اپنے تینوں بچے نہر میں پھینک دیتی ہے، بیسیوں مثالیں اور بھی، مگر دیگ کا دوسرا دانہ چکھتے ہیں، دو چار روز پہلے یہی پاناما زدہ وزیراعظم کہ جن کیلئے سپریم کورٹ اب جے آئی ٹی بنا چکی، فرماتے ہیں کہ ’’چاروں طرف کرپشن دیکھ کر دل دُکھتا ہے‘‘، اب بتائیے میاں صاحب کا دل دُکھ رہا ہے اور وہ بھی کر پشن پر... کیوں ٹھنڈ پڑی کلیجے میں...
صاحبو! اپنی دیگ کے دو دانے چکھا کر بتانا یہ تھا کہ یہی وہ دو عملی کہ جس نے پاکستان کا حال یہ کر دیا کہ ایک طرف جس کے گھر سے لوٹ مارکا پونا ارب نکلے وہ سیکرٹری خزانہ بلوچستان تو ایک دن بڑے آرام سے پتلی گلی سے نکل جائے جبکہ دوسری طرف جیب کترے اور معمولی جھگڑے کرنیوالے بھوکے ننگے مہینوں ہتھکڑیاں پہنے کورٹ کچہریوں میں رُلتے رہیں، ایک طرف بعض سیاسی لیڈر ہیں جن پر اربوں روپے کے کیسز ہیں مگر وہ سب کے سب ضمانتوں پر باعزت زندگیاں گزار رہے جبکہ دوسری طرف معمولی چوری چکاری اور آوارہ گردی کے شبہے میں پکڑے ہوؤں کی روزانہ چھترول ہو اور ان کی سال سال تک پہلی پیشی ہی نہ ہو پائے، ایک طرف غریبوں کی بات کرنے والے پیپلز پارٹی کے رہنما ہیں جن کے پاس بہت پیسہ پڑا ہے مگر سب جانتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں غریبوں کے لئے کیا کیا۔ ایک طرف جس ملک کے صرف ایک شہر اسلام آباد کے مکین ہر ہفتے ولایت سے آیا پانی کا ایک کنٹینر پی جائیں، جبکہ دوسری طرف اسی ملک کے سندھ اور بلوچستان میں 100سے زیادہ جوہڑ ایسے کہ جہاں آج بھی انسان اور جانور اکٹھے پانی پی رہے، ایک طرف ایک ایکسرے کیلئے دو دو مہینے عوام لائنوں میں لگے ہوئے جبکہ دوسری طرف نزلے اور زکام کیلئے بھی ولائت جاتے رہنما، ایک طرف طبقہ اشرافیہ کی پوری نسل باہر پڑھ رہی جبکہ دوسری طرف غریبوں کے ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر جبکہ غریبوں کے اسکولوں کی حالت یہ کہ ڈیڑھ لاکھ سرکاری اسکولوں میں 11ہزار اسکول عمارتوں کے بغیر، 15ہزار اسکولوں کی عمارتیں خطرناک ڈکلیئر اور 50ہزار اسکولوں کی عمارتوں کی فوری مرمت ہونے والی اور ایک طرف جمہوریت کی بقا کیلئے شریف برادران زرداری صاحب کو دعوت کھلائیں تو وہ 72ڈشوں والی ہو جبکہ دوسری طرف ابھی پچھلے ہفتے تھر میں بھوک 5بچے مزید مار دے اور ایک بچہ تو یوں جان سے جائے کہ اسے جو ایمبولینس اسپتال لے جا رہی تھی وہ راستے میں ہی خراب ہو گئی یعنی 70سال پہلے قائداعظم ؒ بھی خراب ایمبولینس کی نذر ہوئے جبکہ 70سال بعد تھرپارکر کا بچہ بھی خراب ایمبولینس میں ہی مر جائے، مطلب 70سالوں میں ہم اپنی ایمبولینس ہی ٹھیک نہ کر سکے۔
لیکن بات ایمبولینس تک ہی محدود نہیں، یہاں تو حال یہ کہ 1988ء میں بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف جس تونسہ لیہ پل کا افتتاح کرتے ہیں، 30سال بعد رواں ماہ اسی پل کا دوبارہ افتتاح فرما دیتے ہیں، کیا مستقل مزاجی ہے، اب ایک طرف 30سالوں میں سویت یونین ٹوٹ گیا، چین اکنامک سپر پاور بنا اور ملائشیا اور ترکی دنیا کے نقشے پر چھا گئے، ایک طرف 30سالوں میں دنیا کمپیوٹر سے لیپ ٹاپ پر، لیپ ٹاپ سے آئی پیڈ پر اور آئی پیڈ سے اسمارٹ فون پر آگئی اور ایک طرف ان 30سالوں میں انٹرنیٹ وائی فائی میں بدلا اور تھری جی، فور جی، وٹس ایپ اور فیس بک پوری دنیا کو گلوبل ویلج بنا دے جبکہ دوسری طرف 30سالوں میں ہم ایک تونسہ لیہ پل بھی نہ بنا پائے، تو صاحبو! بات تو سمجھ آ چکی ہو گی کہ یہاں یہ سب کیوں؟ لیکن اب یہاں سوال یہ کہ کیا کرنا چاہئے کہ یہ سب کچھ بدل جائے تو بات بڑی سادہ سی کہ یہ سب کچھ تب ہی بدلے گا، جب ہم بدلیں گے، اب سوال یہ کہ ہم کیسے بدلیں تو وہ ایسے کہ جب ہمارے ہاں عقیدت پرستی کے ساتھ بصیرت پرستی ہوگی، جب ہمارے ہاں قرآن خوانی کے ساتھ قرآن فہمی بھی ہوگی، جب ہمارے ہاں جہالت کی بجائے علم معتبر ٹھہرے گا، جب ہمارے ہاں سائنس بھی سائیں جتنی اہم ہو گی، جب ہاں تضحیک کی بجائے تحقیق پر فوکس ہوگا، جب ہم الائشوں کو آرائشوں میں بدلنا سیکھ لیں گے، جب آپس میں لڑنے کی بجائے ہم حالات سے لڑیں گے، جب ہم مسل کی بجائے عقل پر بھروسہ کریں گے، جب ہمیں صبر اور جبر میں فرق کا پتا چل جائے گا، جب ہمارے ہاں تعداد کی بجائے استعداد بڑھے گی، جب سوال اُٹھانا کفر نہیں فخر کہلائے گا، جب ہم فتوے کی بجائے تقوے پر فخر کریں گے، جب ہم کائنات کو بے توقیر کرنے کی بجائے کائنات کو تسخیر کرنے لگ جائیں گے، جب ہم تکبر کی بجائے تدبر کریں گے اور جب امام ضامن کے ساتھ ساتھ ہماری حفاظت کا ہمارا نظام ضامن بھی ہو جائے گا تو پھر ہم بھی بدل جائیں گے اور ہمارا سب کچھ بھی بدل جائے گا، مگر یاد رہے کہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے چسکوں اور غیبتوں کی محفلیں سجانے سے نہ کبھی کچھ بدلا اور بدلے گا، اگر آپ واقعی کچھ بدلنا چاہتے ہیں تو منو بھائی کی یہ بات پلے باندھنا ہوگی کہ ’’ہُندا نیں کرنا پیندا اے، عشق سمندر تَرنا پیندا اے، سُکھ لئی دُکھ جھلنا پیندا اے، حق دی خاطر لڑنا پیندا اے، تے جیون لئی مرنا پیندا اے‘‘۔

.
تازہ ترین