• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ بات جس کا فسانے میں کوئی ذمہ نہ تھا تحریر:قاری تصورالحق مدنی…برمنگھم

سب سے پہلے دنیا بھر کے مسلمانوں کو عید کی خوشیاں مبارک ہوں۔ اگرچہ برطانیہ میں عید کا مزہ کچھ لوگوں کے باہمی اختلاف نے ایک با ر پھرکرکراکردیا۔ تاہم دینی تہوار کو جوش و ولولہ سے منانا خوش آئند ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ سلسلہ قائم رہے۔دنیا کو خوب معلوم ہے اور وہ اچھے طریقے سے جانتی ہے کہ امریکہ ابھی تک دنیا میں ایک بڑا اور طاقتور ملک ہے اور پھر امریکہ کے دورہ پر آئے ہوئے بھارتی وزیر نریندر مودی کو بھی یہی زعم ہے کہ وہ بھی شاید دنیا کا بڑا ملک ہے اور اگر ایسا نہیں تو وہ امریکہ کے بعد تو بڑا ہی ہے لیکن عجیب اتفاق ہے کہ دونوں اپنے بڑے پن کے کردار کونبھانے میں بری طرح ناکام ہیں۔ ان دونوں ممالک کے دونوں بڑوں میں اعلامیہ میں تکرار ہوا کہ اسلامی انتہا پسندی کو ختم کیا جائے گا، مگر چراغ تلے اندھیرا کے مصداق بھارتی ہندوانہ انتہا پسندی کا کوئی ذکر تک نہیں، بھارت جس کی بنیاد سیکولر ازم پر تھی، آج تو اسی بھارت میں دیگر مذاہب کے علاوہ خود ہندوئوں کی بعض ذاتوں کو زندہ رہنے کا حق نہیں دیا جارہا۔ بھارت کے انسانیت کش رویہ کے باوجود اس کو سلام کرنا امریکہ کے لئے سبب عار نہیں۔ امریکہ کیا یہ بھول گیا کہ جس بھارتی وزیراعظم کو صدر ٹرمپ جھپی ڈال رہا ہے، یہ وہی ہے جسے قاتل انسانیت قرار دے کر امریکہ میں داخلے سے روکا گیا تھا۔ پاکستان جس نے دہشت گردی کے خاتمے اور انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے تمام دنیا سے زیادہ اور بے مثال قربانیاں دی ہیں اسی سے ڈومور کا مطالبہ ماضی کی طرح ابھی بھی قائم ہے۔ پٹھان کوٹ اورممبئی کے واقعات کے حوالے سے ملزموں کے خلاف کارروائی کے ساتھ اپنی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک میں کارروائیوں کے کے لئے استعمال نہ ہونے کی تلقین کی ہے، جبکہ مصدقہ ثبوتوں کے باوجود امریکہ بھارتی زیادتیوں کا ذکر تک کرنے سے گریز کررہا ہے۔ پاکستان تمام دنیا کو بھارتی کارروائیوں سے آگاہ بھی کرتا آرہا ہے۔ بھارت صرف خود مجرمانہ کارروائیوں کا حصہ نہیں رہا، بلکہ دوسرے ممالک کو بھی پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں استعمال کرتا رہا ہے۔ دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ دو ہی مسائل نے دنیا کو بدامنی کا شکار کر رکھا ہے۔ فلسطینی ریاست اور کشمیری عوام کی آزادی وہ بنیادی مسائل ہیں جنہوں نے قربتوں کو دوریوں میں تبدیل کر رکھا ہے۔ جہاں یہ حقیقت ہے کہ امریکی صدر نے بھارت کو نوازنے اور قاتل وزیراعظم اور ہندوانہ انتہا پسندی کے سرغنہ مودی کے استقبال میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ساری دنیا کے لوگوں کو یہ بتایا کہ امریکہ اپنے مفادات کے لیے سب کچھ کرسکتا ہے، وہیں کم از کم اس حقیقت کو بھی عالم پر واضح کیا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں، جس کا واضح پیغام یہ ہے کہ یہ مسئلہ حل طلب ہے اور یہ بات الگ ہے کہ امریکہ جس ملک کو اپنا بہترین دوست قرار دے رہا ہے، وہی ملک خود امریکہ کی رسوائی کا ذریعہ ہے، کچھ ماہ پہلے جب صدر ٹرمپ کی خواہش پر یہ خبر چلی تھی کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان امریکہ ثالثی کرنےکے لئے تیار ہے تو بھارت ہی نے امریکہ کے کردار کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا، امریکہ کو اچھے طریقے سے معلوم ہے کہ بھارت، پاکستان کونقصان پہنچانے اور کمزور کرنے کے لیے پورے طور پر ملوث ہے اور بھارتی وزیراعظم مودی بنگلہ دیش میں جاکر برملا یہ تسلیم کرچکا ہے کہ بھارت ہی تقسیم پاکستان کا مجرمانہ کام کرنے کا ذمہ دار ہے۔ نیز خطے میں کشمیر پر غاصبانہ قبضے اور کشمیریوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بھی مرتکب بھارت ہورہا ہے۔ اس کے باوجود بھارت کو نوازنا کیونکر درست ہوسکتا ہے اور پھر زیادتی پر زیادتی یہ کہ مودی اور ٹرمپ کی ملاقاتوں میں برصغیر میں بدامنی کے سب سے بڑے سبب کشمیر کا سارے فسانے میں ذکر ہی نہیں اٹھا۔ ایک کشمیری رہنما جو کشمیریوں کے حق خودارادیت کی بات کرتا ہے کو ٹرمپ، مودی ملاقات میں دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے۔ ایک کشمیری اور پاکستانی ہونے کے ناتے مجھے یہ حق پہنچتا ہے کہ امریکہ سے یہ سوال کروں کہ آخر امریکہ، بھارت سے یہ کیوں نہیں پوچھتا کہ جو مسئلہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ماضی میں بھی تلخیوں کا سبب رہا ہے اور مستقبل میں بھی اس کے حل کیے بغیر امن کی ضمانت نہیں دی جاسکتی، اسے وہ حل کیوں نہیں کرتا، بھارت یہ بھول جائے کہ وہ کشمیر کے مسئلہ کے حل کیے بغیر دنیا کا امریکہ کے بعد بڑا بن جائے گا۔ بھارت اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اپنے مکروہ عزائم میں کامیاب ہوجائے گا تو وہ غلط فہمی کا شکار ہے۔ روس اور چین خطہ میں ہوتے ہوئے امریکی خواہشات کو کسی بھی طور پر پورا نہیں ہونے دیں گے اور پاکستان بھی20کروڑ پاکستانیوں اور باہمت اور بہادر افواج کی موجودگی میں بھارت کو مسلح کرنے کی بجائے اپنے مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے اس کی درست راستہ کی رہنمائی کرے اور پرامن حالات کو یقینی بنانے کے لیے بھارت کو جارحانہ کارروائیوں سے روکے۔ ایک امید رکھتا ہوں کہ امریکہ، مودی کی واپسی سے قبل اس کو کشمیر کے مسئلہ میں اپنی ثالثی کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ بھارت، پاکستان اور چین کے ساتھ تنازع کے ذریعہ خود اپنی خودکشی پر دستخط کرے گا، کیونکہ شاید امریکہ دوری کے باعث بھارت کو زیادہ تحفظ نہیں دے پائے گا اور یوں امریکہ اس بات کا ذکر فسانے میں لانے میں سرخرو ہوگا، جس کا ابھی تک ذکر نہیں۔

تازہ ترین