• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کے ججوں کو بھی معلومات فراہم نہیں کیں

Todays Print

اسلام آباد (احمد نورانی) انتہائی مصدقہ ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ پاناما کیس کی تحقیقات میں مصروف جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کے ججوں کو پیش کی جانے والی رپورٹ میں بھی اُس ادارے یا شخص کا نام نہیں بتایا جس نے حسین نواز کی تصویر لیک کی تھی۔

حسین نواز 28 مئی 2017ء کو جے آئی ٹی میں پیش ہوئے تھے اور 4 جون 2017 کو ان کی پیشی کی سی سی ٹی وی تصویر سوشل میڈیا پر لیک کر دی گئی تھی۔ اس کا مقصد وزیراعظم نواز شریف کی جے آئی ٹی میں پیشی سے قبل ملزم اور ان کے اہل خانہ کی توہین تھا۔ حسین نواز نے 7 جون کو سپریم کورٹ میں اس توہین آمیز رویے کیخلاف درخواست دائر کی جس میں جے آئی ٹی کے تعصب کی عکاسی کی گئی تھی اور مطالبہ کیا کہ تصویر لیک کیے جانے کے معاملے کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے۔

12 جون کو جے آئی ٹی نے حسین نواز کی درخواست پر 11 صفحات پر مشتمل جواب جمع کرایا۔ جواب میں لکھا تھا کہ جے آئی ٹی نے 4 جون کو معاملے کا علم ہوتے ہی اس کی فوری تحقیقات کرائی اور تصویر لیک کرنے والے شخص کی شناخت کی گئی اور اسے اس کے ادارے میں واپس بھیج دیا گیا جہاں اسے سزا دی گئی۔ اپنے جواب میں جے آئی ٹی کا کہنا تھا کہ ٹیم نے 24 گھنٹوں کے اندر ہی اپنی تحقیقات مکمل کر لیں اور حسین نواز کی جانب سے 7 جون کو درخواست دائر کرنے سے قبل ہی بینچ کو اپنی رپورٹ پیش کی۔

12 جون کو جے آئی ٹی کی جانب سے 11 صفحاتی جامع رپورٹ پیش کیے جانے کے بعد پہلا سوال یہ پیدا ہوا کہ جب جے آئی ٹی نے 7 جون سے قبل ہی اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی تھی تو 7 جون کی سماعت میں اس پر بحث کیوں نہیں ہوئی۔

دوسرا سوال یہ پیدا ہوا کہ جے آئی ٹی سے حسین نواز کی درخواست پر ایک مرتبہ پھر جواب کیوں مانگا گیا جبکہ جے آئی ٹی پہلے ہی تصویر لیک کیے جانے کے معاملے کی رپورٹ بینچ کو جمع کرا چکی تھی۔ اور اب مصدقہ ذرائع نے بتایا ہے کہ جے آئی ٹی اتنی طاقتور ہو چکی ہے کہ اس نے عدالت میں جمع کرائی جانے والی تصویر لیک کی انکوائری رپورٹ میں بھی سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کو یہ بتانے کی زحمت تک نہیں کی کہ کس ادارے کا شخص تصویر لیک کرنے میں ملوث تھا۔

جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کے ججوں پر بھروسہ نہیں کیا کہ تحریری طور پر انہیں بتایا جائے کہ کس نے تصویر لیک کی۔ تاہم، اس کے بعد ہونے والی سماعت میں جے آئی ٹی کے ایک رکن نے کہا کہ سیکورٹی وجوہات کی بنا پر مذکورہ شخص کا نام نہیں بتایا جا سکتا۔ جے آئی ٹی نے تصویر لیک کرنے والے کا نام سامنے لانے کے معاملے میں اپنے ہونٹ سی دیئے۔

سپریم کورٹ میں یہ معاملہ اب بھی زیر سماعت ہے اور یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ آیا اعلیٰ سطح کا جوڈیشل کمیشن بنے گا جو تصویر لیک کرنے میں ملوث شخص کا نام سامنے لائے جس کی وجہ سے جے آئی ٹکی کارروائی متنازع اور متعصبانہ ہوگئی ہے۔ ایسے لوگ موجود ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ تصویر لیک ہونے کا معاملہ کیسے اہم ہوگیا ہے حتیٰ کہ یہ پاناما کیس کی مرکزی تحقیقات سے بھی زیادہ اہم بن چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تصویر لیک ہونے کے ایشو کو نظر انداز کر دینا چاہئے۔ تصویر لیک ہونے اور کرنے والے کی شناخت اس لئے اہم ہے کیونکہ اس سے کارروائی شفاف ہوجائے گی۔

جن لوگوں کی نظر میں یہ معاملہ اہم ہے ان کے مطابق، بصورت دیگر کوئی بھی جے آئی ٹی کی تحقیقات پر بھروسہ نہیں کرے گا۔ یہ واضح ہے کہ یہ تصویر ان لوگوں نے لیک کی ہے جو جے آئی ٹی کے انتظامی امور کنٹرول کر رہے ہیں اور اسلئے شناخت کا سامنے آنا بہت اہم معاملہ ہے۔

تازہ ترین