• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ایک کہانی لکھنا چاہتا ہوں لیکن لکھ نہیں پاتا ، روز قلم اٹھاتا ہوں توڑ دیتا ہوں ، گھنٹوں سوچتا رہتا ہوں کہاں سے شروع کروں کہاں ختم کروں۔ یہ کوئی ایسی کہانی نہیں جس کے خدو خال مجھ پر واضح نہیں ،اگر یکسوئی سے لکھنے بیٹھوں تو چند گھنٹوں میں اس کہانی کو مکمل کر لوں، مگر یہ اتنا بھی آسان نہیں ۔ یہ کہانی کئی برسوں پر محیط ہے ۔اِس کہانی کے کردار جیتے جاگتے ہیں، میں اُن سے گفتگو کر سکتا ہوں، اُن کی سب خوبیاں اور خامیاں مجھ پر عیاں ہیں، کہانی میں کس کی، کب اور کہاں انٹری ہونی سب تانا بانا میرے ذہن میں مکمل ہے۔ کئی مرتبہ میں نے یہ کہانی شروع کرنے کی کوشش کی مگر چند سطریں لکھنے کے بعد کاٹ دیں، کئی ہفتوں تک میں یونہی کرتا رہا، ایک آدھ صفحہ لکھتا اور پھاڑ ڈالتا۔میرے دوست لکھاری میرا مذاق اڑاتے ہیں اور بزدلی کا طعنہ دیتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ میں خوفزدہ ہوں۔ اُن کی بات سن کر میں چپ ہو جاتا ہوں۔ شاید وہ ٹھیک کہتے ہیں۔مجھ میں یہ کہانی لکھنے کی ہمت نہیں اور کبھی مجھے یوں لگتا ہے جیسے بچہ بچہ اس کہانی سے واقف ہے مگر سب کے ہونٹ سلے ہیں۔ بادشاہ کے محل میں اس کہانی کا چرچا ہے، دربان بھی یہ کہانی ایک دوسرے کو سناتے ہیں، عوام میں بھی اسی کے متعلق چہ مگوئیاں کرتے ہیں تو پھر مجھے یہ کہانی لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔جب اس کہانی کی ابتدا اور اختتام لوگ جانتے ہیں، کرداروں سے بھی سب واقف ہیں، مکالمے بھی کانوں کو مانوس سے لگتے ہیں تو پھر اس کہانی کو لکھنے میں مشکل کیا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ مجھ سے پہلے کئی لوگوں نے اس کہانی کو لکھنے کی کوشش کی مگر کوئی بھی مکمل نہ کر پایا سو اس لحاظ سے یہ ایک منحوس کہانی ہے۔ میں ان لوگوں کو حیرت سے دیکھتا ہوں جو روزانہ نئی نئی کہانیاں لکھتے ہیں اور لوگوں سے داد وصول کرتے ہیں، ان لکھاریوں کی کہانیوں میں وہ سب کچھ ہے جو لوگ پڑھنا چاہتے ہیں۔ میں نے کبھی نہیں سنا کہ انہیں اپنی کہانی لکھنے میں کبھی مشکل پیش آئی ہو۔ قلعے کے محافظ ان کہانیوں کے دلدادہ ہیں۔ معبدوں کو بھی ان کی کہانیاں پسند ہیں۔
جو کہانی میں لکھنا چاہتا ہوں باوجود اس کے کہ لوگ اس کے بارے میں پہلے سے جانتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ جب میں اسے مکمل کروں گا تو یہ بہت پسند کی جائے گی، جو لوگ اس کے بارے میں بات کرنے کی ہمت نہیں رکھتے وہ بھی اسے پڑھ کر حوصلہ لیں گے اور جو سرگوشیوں میں یہ کہانی ایک دوسرے کو سناتے ہیں انہیں بھی ہمت ہوگی کہ علی الاعلان یہ کہانی سنائیں۔ پھر مائیں اپنے بچوں کو یہ کہانی سنائیں گی، اسکول کے نصاب میں یہ کہانی شامل کی جائے گی، قلعے کی فصیل پر اس کہانی کے مکالمے لکھے جائیں گے، قوس قزح کے رنگوں سے یہ کہانی فضائوں میں بکھیری جائے گی، عوامی اجتماعات میں یہ کہانی پڑھی جائے گی، بادشاہ بلا خوف یہ کہانی عوام کو سنائے گا .........مگر آج، نہ جانے کیوں، میں ایک مرتبہ پھر میں یہ کہانی نہیں لکھ پاؤں گا۔ میں نے اپنے ہاتھوں کو ٹٹول کر دیکھا ہے، کسی نے مجھے جکڑ تو نہیں رکھا، پائوں میں بیڑی تو نہیں ڈال رکھی، میری آنکھوں پر پٹی تو نہیں بندھی.........ایسا کچھ بھی نہیں ہے ، اس کے باوجود میں یہ محسوس کررہاہوں جیسے اگر میں یہ کہانی لکھنے کی کوشش کروں گا تو میرا دم گھٹ جائے گا، میرے ہاتھ کام کرنا چھوڑ دیں گے اور یوں لگے گا جیسے کسی نے پیروں میں زنجیریں ڈال دی ہوں۔ غالباً یہ میرا وہم ہے یا شاید کہانی نہ لکھنے کا ایک سا فضول بہانہ، ایک بےتکا جواز۔
یہ کہانی ہے کیا؟ جب ہم سب اس کے بارے میں جانتے ہیں تو پھر کھلے عام سناتے کیوں نہیں؟ ایک دوسرے سے اشاروں کنائیوں میں بات کیوں کرتے ہیں؟ بند دروازوں کے پیچھے چھپ کر یہ کہانی کیوں سنتے ہیں؟ اگر میں یہ کہانی نہیں لکھ سکتا تو کوئی دوسرا اسے کھول کر بیان کیوں نہیں کر دیتا ؟ لیکن شاید کسی کےلئے بھی یہ کوئی آسان کام نہیں، حالانکہ یہ آپ کی اور میری کہانی ہے، ہماری بندشوں کی کہانی ہے، ہماری سوچ کو قید کرنے کی کہانی ہے، زباں بندی کی کہانی ہے ، ہمیں کیسے جینا ہے کیسے مرنا ہے، فضا میں سانس کیسے لینا ہے، کہاں آنکھیں بند کرنی ہیں، کہاں سوال نہیں اٹھانے، کہاں جواب تلاش نہیں کرنے، کہاں قدم رکھنے ہیں اور کہاں نہیں رکھنے کہ کہیں سرخ لکیر عبور نہ ہو جائے......... یہ اس سرخ لکیر کی کہانی ہے۔ یہ اس آزادی کی کہانی ہے جس کی تلاش میں یہ کہانی لکھی جا رہی ہے۔ یہ کہانی ان کرداروں کی ہے جو ایسی کہانیوں کو پسند نہیں کرتے۔ یہ کہانی اس دیس کی ہے جہاں لکھاری کہانیوں میں کردار کا نام نہیں لکھتے، بےبسی کے نوحے لکھتے ہیں۔
مگر اب وقت تبدیل ہو رہا ہے، میں یہ کہانی لکھوں یا نہ لکھوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ مجھے یقین ہے کسی دن کوئی نہ کوئی لکھاری یہ کہانی ضرور مکمل کرلے گا اوراس دن میری آج کی کہانی بھی اس بڑی کہانی میں ضم ہوجائے گی۔

تازہ ترین