• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانامہ لیکس کی چھان بین کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) کی رپورٹ عام ہونے کے بعد ملک میں پہلے سے جاری سیاسی محاذ آرائی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے سب سے بڑے مخالف تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے وزیراعظم کے فوری استعفے اور شریف خاندان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا مطالبہ کرنے میں دیر نہیں لگائی اور ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور قائد آصف علی زرداری نے جو ویسے تو دوسرے ایشوز پر عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے، اس معاملے میں ان کے ہمنوا بن گئے ہیں جبکہ حکمران پاکستان مسلم لیگ (ن) نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو ردی کا ٹکڑا اور عمران نامہ قرار دے کر مستردکر دیا ہے اور اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت پارٹی کے اعلیٰ سطحی مشاورتی اجلاس میں طے کیا گیا کہ وزیراعظم کسی صورت استعفا نہیں دیں گے۔ سیاسی مخالفین کا بھرپور مقابلہ کیا جائے گا اور منتخب حکومت اور وزیراعظم کے خلاف سازشیں ناکام بنانے کے لیے تمام آپشنز استعمال کئے جائیں گے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں جو پیر کو سپریم کورٹ کے عملدرآمد بینچ کو پیش کی گئی کہا گیا ہے کہ شریف فیملی کے اعلان شدہ اثاثے اس کی آمدن سے زیادہ پائے گئے ہیں جو اس کے مالی معاملات کو مشکوک بناتے ہیں۔ فیملی کی کمپنیاں زیادہ تر 1980-90کی دہائی میں قائم کی گئیں جب نواز شریف کے پاس عوامی عہدہ تھا۔ خاندان نے ان کمپنیوں میں اپنا پیسہ بہت کم لگایا جبکہ زیادہ رقم ملکی اور غیر ملکی اداروں سے حاصل کی گئی۔ شریف فیملی پر دوسرے الزامات کے علاوہ سپریم کورٹ میں خریدوفروخت کے معاہدوں کی جعلی دستاویزات جمع کرانے کی بھی تصدیق کی گئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ بنیادی طورپر 32کمپنیاں اور ملیں شریف خاندان کی کاروباری ملکیت رہی ہیں۔ ان کی لندن میں چلنے والی 6آف شور کمپنیاں بھی ہیں جو خسارے میں چل رہی ہیں انہیں مہنگی جائیدادیں خریدنے اور رقوم کی منتقلی کے لیے استعمال کیا گیا۔ عرب امارات میں ایک آف شور کمپنی کے چیئرمین خود نواز شریف تھے۔ جے آئی ٹی نے اس سلسلے میں شریف خاندان کے ارکان کی وضاحتوں اور ثبوتوں کو غیر تسلی بخش قرار دیا ہے، فیملی پر کئی دوسرے الزامات کو بھی حقیقی قرار دیا گیا، جے آئی ٹی رپورٹ دس ابواب پر مشتمل ہے پہلے 9ابواب کی نقول فریقین کے حوالے کردی گئی ہیں جبکہ دسویں باب کو مزید تحقیقات کے لیے خفیہ رکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کا تین رکنی عملدرآمد بینچ رپورٹ کے حوالے سے کیس کی باقاعدہ سماعت کرے گا جس کے لیے آئندہ تاریخ پیر17جولائی مقرر کی گئی ہے، مسلم لیگ ن کے وزرا نے ایک پریس کانفرنس میں رپورٹ میں کئی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ’’سورس‘‘ رپورٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ان کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی کمیٹی نے سیاسی مخالفین کے الزامات کو رپورٹ کی شکل دے دی ہے۔ مسلم لیگ ن اور شریف فیملی کو اس طرح کے تحفظات شروع ہی سے تھے۔ جے آئی ٹی نے صرف 62روز کی مختصر مدت میں سالہا سال پر محیط معاملے کی تحقیق و تفتیش کے بعد اپنی رپورٹ میں جو بھی نتائج اخذ کئے ہیں امکانی طور پر ان میں کچھ خامیاں بھی ہو سکتی ہیں لیکن یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ اس نے کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ اب عدالت اس رپورٹ کا خود جائزہ لے گی اور حتمی فیصلہ آئین قانون اور انصاف کے تمام تقاضوں کو مدنظر رکھ کر کرے گی۔ اس لیے فریقین کو چاہیئے کہ سیاسی درجۂ حرارت بڑھانے کی بجائے قانونی راستہ اختیار کریں اور عدالت کے فیصلے کا صبر و تحمل سے انتظار کریں۔ یہ فیصلہ احتساب کے حوالے سے مستقبل میں ایک نظیر کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ یہ پاکستان ہی نہیں، پوری دنیا کی تاریخ میں ایک نظیر ثابت ہو گا۔ اس لیے ملک قوم اور جمہوریت کے مفاد میں سیاسی محاذ پر ایسی صورت حال نہ پیدا کی جائے جو ملک میں پہلے سے موجود اندرونی اور بیرونی مشکلات میں اضافے کا سبب بنے۔

تازہ ترین