• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں جب لندن جاتا ہوں تو اکثرمیری رہائش ایک دوست کے پاس ایکٹن ٹائون میں ہوتی ہے اور جس دوست کے ساتھ سارا دن گھومنا ہوتا ہے وہ وکٹوریہ ٹرین اسٹیشن کے قریب رہتا ہے۔ سو میں صبح صبح ایکٹن ٹائون سے انڈرگرائونڈ ٹرین کی ڈسٹرکٹ لائن پر بیٹھتا ہوں جو مجھے تقریباً آدھ گھنٹے میں وکٹوریہ لے جاتی ہے۔ اس تیز رفتار انڈر گرائونڈ ٹرین میں سفر کے دوران میری نظر ہر آنے والے اسٹیشن پر ہوتی ہے کہ کہیں جلدی میں وکٹوریہ اسٹیشن گزر نہ جائے۔ جیسے ہی سائوتھ کیسنگٹن کا اسٹیشن آتاہے، میں سیٹ سے اٹھ کردروازہ کے پاس کھڑا ہوجاتا ہوں کہ اب ایک اسٹیشن چھوڑ کر اگلا اسٹیشن وکٹوریہ ہوگا۔ یہ جو سائوتھ کیسنگٹن کا اسٹیشن ہے کسی زمانے میں عمران خان یہاں بہت دکھائی دیا کرتے تھے۔ دراصل اس علاقہ میں عمران خان کا ایک فلیٹ ہوا کرتا تھا۔ انہوں نے 1983میں یہاں ڈرے ایونیو پرایک کئی منزلہ عمارت کی چھت پر ایک فلیٹ خریدا تھا۔ اس وقت اس کی قیمت ایک لاکھ سترہ ہزار پائونڈ تھی۔ 61ہزار پائونڈ عمران خان نےکیش ادا کئے تھے۔ باقی رقم کی ادائیگی کےلئے بنک سے مارگیج لیا تھا یہ مارگیج بیس سال کےلئے تھا۔ مگر عمران خان نے بنک کا یہ لون چھ سات سال میں ادا کردیا۔ یہ رقم اس وقت پاکستانی روپے میں ساٹھ لاکھ سےزیادہ نہیں تھی۔ پچھلے دنوں جب فلیٹ کی خریداری کی تمام تفصیلات عمران خان نے سپریم کورٹ میں جمع کرادیں توسپریم کورٹ نے کہاکہ یہ جو ایک لاکھ سترہ ہزار پائونڈ تھے یہ کہاں سے آئے تھے ان کی بھی منی ٹریل ہمیں چاہئے۔ اس منی ٹریل کی تلاش خاصا مشکل کام تھا کیونکہ یہ رقم عمران خان نے مختلف کائونٹیوں میں کرکٹ کھیل کر جمع کی تھی۔ مجبوراًعمران خان نے تلاش شروع کی اور پھراللہ کی مدد سے آخرکار وہ اِس کی تلاش میں کامیاب ہوگئے۔ سو اس رقم کی بنکوں سے حاصل شدہ تفصیلات کورٹ میںجمع کرا دی گئی ہیں۔ یوں عمران خان منی ٹریل کی جنگ جیت گئے ہیں لیکن اس بات کا بھی دھیان رکھیں کہ اس ساٹھ لاکھ روپے کی منی ٹریل کا مقابلہ شریف خاندان کی اربوں کھربوں کی منی ٹریل سے تھا۔
ایک اور بات کی وضا حت بھی بڑی ضروری ہے کہ اثاثوں کی ملکیت میں اِس وقت عمران خان ایک ارب چالیس کروڑ کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ یہ سوال بھی کئی لوگ کرتے ہیں کہ ’’یہ اتنی بڑی رقم کے اثاثے کہاں سے آئے۔ لندن والا فلیٹ آٹھ دس سال کے بعد پانچ سات کروڑ کا بک گیا ہوگا۔ مگر ایک ارب اور چالیس کروڑ کہاں سے آئے ہیں‘‘ تو اس کا جواب صرف اتنا ہے کہ اس رقم میں سوائے عمران خان کی خوش قسمتی کے، کسی اور چیز کا کوئی دخل نہیں ہے۔ قصہ صرف اتنا ہے کہ ان کے لاہور کےآبائی گھر کی اِس وقت قیمت 30کروڑ ہو چکی ہے اور بنی گالا والے گھر کی زمین جو جمائمہ خان نے چند کروڑ کی خرید کر انہیں تحفہ کے طور پر دی تھی اُس گھر کی قیمت اِس وقت 75کروڑ ہو چکی ہے۔ یعنی عمران خان کے پاس جو کچھ ہے اس میں کہیں کوئی ہیرا پھیری نہیں ہے۔ پھر انہوں نے خودبنی گالا والے گھر کی قیمت 75کروڑ بیان کی ہے جب کے ان کے مقابلے میں وزیر اعظم نوازشریف نے رائے ونڈ محلات کی قیمت صرف چالیس لاکھ روپے ظاہر کی ہوئی ہے۔ ممکن ہے چالیس کروڑ درج کی گئی ہو اور غلطی سے لکھتے ہوئے ایک صفر رہ گیا ہو مگر میں سمجھتا ہوں کہ رائے ونڈ محلات عمران خان کے بنی گالا والے گھر سے کئی گنا زیادہ قیمتی ہیں۔
ایک اور مقدمہ بھی تحریک انصاف کے خلاف ہے کہ تحریک انصاف کوغیر ملکیوں نے فنڈنگ فراہم کی ہے۔ خیر اس کی تمام تفصیل سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی ہے اور وہ تمام غیر ملکی وہی ہیں جو یا تو خودپہلے پاکستانی تھے یا ان کے پاس دہری شہریت ہے یا وہ غیرملکی ہیں جن کےوالدین میں سے کسی ایک کا تعلق پاکستان سے تھا۔ لیکن اگر ایسا ہوتا بھی کہ تحریک انصاف کو غیرملکیوں نے کوئی فنڈنگ کی ہوتی تو یہ بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہونی چاہئے تھی۔ عمران خان کا کوئی غیر ملکی دوست انہیں فنڈنگ دے سکتا ہے۔ ان کی سابقہ برٹش بیوی کا کوئی رشتہ دار بھی تحریک انصاف کو فنڈنگ دے سکتا ہے۔ جس طرح ایک برطانوی ادارہ پاکستان کو تقریباً سات آٹھ سو ملین پائونڈ کی فنڈنگ خیراتی کاموں کےلئے دیتا ہے۔ اسی طرح برطانیہ کے امیر لوگ بھی دنیا میں بہتری کےلئے فنڈنگ دیتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں کی برطانیہ میں جتنی چیریٹی آرگنائزیشز پاکستان کی بہتری کے لئے کام کرتی ہیں۔ ان کو بے شمار ایسے لوگ بھی فنڈ دیتے ہیں جن کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ فنڈنگ قطعاً اُس جیسی مبینہ فنڈنگ نہیں جو اُسامہ بن لادن نےمحترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمہ کے لئے دی تھی۔ یہ فنڈنگ ویسی فنڈنگ بھی نہیں جو پڑوسی ممالک پاکستان کے مختلف سماجی و مذہبی مراکز کو دیتے ہیں۔ یہ فنڈنگ ویسے بھی نہیں ہوسکتی جو قطری شہزادے نے شریف فیملی کو دی تھی کیونکہ اس فنڈنگ کی مکمل منی ٹریل موجود ہوگی۔ (اگر دی گئی ہو تو) تحریک انصاف کے ریکارڈ میں تو اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔
اب ایک اور بات کہ صرف تحریک انصاف کو ملنے والی فنڈنگ کا حساب کتاب کیوں کیا جارہا ہے۔ باقی پارٹیوں کو بھی اس اچھےعمل سے گزاراجائے تاکہ حقیقت ِ حال عوام الناس کےسامنے رہے۔ خاص طورپر نون لیگ کی فنڈنگ کا حساب کتاب بہت ضروری ہوگیا ہے اس کی وجہ جے آئی ٹی کا یہ انکشاف ہے کہ 10 کروڑ روپےنواز شریف نے نون لیگ کو فنڈ کے طور پردیئے اورکچھ دنوں کے بعد نون لیگ سے6 کروڑ واپس لے لئے لیکن ان ٹرانزیکشنز کی اکاؤنٹس میں کہیں تفصیل موجودنہیں ہے۔ اس بات کا بھی حساب کتاب ہونا چاہئے کہ نون لیگ نےجو ایک ارب اور30 کروڑ روپے 2013 کے انتخابات میں خرچ کئے تھے وہ کہاں سے آئے تھے۔ اتنی بڑی رقم نون لیگ کو کس کس شخصیت نے بطور فنڈ فراہم کی تھی کیا ان میں کچھ دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والی شخصیات بھی شامل تھیں؟

تازہ ترین