• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عائشہ گلالئی کے الزامات ،کپتان کی میڈیا ٹیم کے بارہویں ،چودہویں اور پندرہویں کھلاڑی کے ساتھ ساتھ بلیک بیری پر کئے گئے مبینہ SMSنے تبصروں اور تجزیوں کا بازار گرم کررکھا ہے ۔ہمارے ہاں پاور گیم میںسیاست اور کردار کشی کی تاریخ پر بات کریں تو یہ چولی دامن کا ساتھ دکھائی دیتاہے ۔90کی دہائی میں لکشمی کانت پیارے لال نے بالی وڈ کی فلم کھل نائیک کے لئے ایک گیت کی دھن بنائی تھی کہ ’’چولی کے پیچھے کیاہے ‘‘ ۔دیکھنا پڑے گاکہ گلالئی اور کپتان کے مابین تنازع کے پیچھے کیاہے ؟سیاست میں عورتوں کومردوں سے کم ترسمجھنے کی روایت کب سے ہے اس بابت یقینی طور پر کچھ نہیں کہاجاسکتا لیکن فروری 1965کے صدارتی انتخابات میں اس نوع کا ایک شرمناک مظاہرہ پہلوانوں کے شہر گجرانوالہ میںدیکھنے میں آیاتھا۔ جنرل ایوب خان اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح صدر کے عہدے کے لئے براہ راست آمنے سامنے تھے ۔جنرل ایوب کے حمایتی مقامی ’’سیاسی پہلوانوں‘‘ جن کا تعلق اس وقت کنونشن مسلم لیگ سے ہوا کرتا تھا۔ انہوں نے مبینہ طور پرایک شرمناک مظاہرہ کیاتھاجس میں مذکورہ پہلوان مردا ور عورت کے درمیان پائے جانے والے فطری تفرق کو بیان کرنے کیلئے ایک جانور کی تانیث کے گلے میں انتخابی نشان لالٹین ڈال کراسے مارتے تھے۔قابل ذکر امر ہے کہ یہ سیاسی پہلوان اب بھی سیاست بلکہ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہیں۔
مادر ملت فاطمہ جناح کے بعداگلاحملہ مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیربھٹو شہید پر کیاگیا۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی اس وقت تک شادی بھی نہیں ہوئی تھی اور میڈیا ان کے نام کے ساتھ آنسہ لکھاکرتاتھا۔مجھے یاد ہے کہ 1977کے انتخابات سے قبل جہاز سے ایک تصویر گرائی گئی تھی جس میں امریکی صدر جیرل فورڈ نمایاں تھے۔اسی قسم کی چند گھٹیا تصاویر 1988کے عام انتخابات میں بھی جہاز سے گرائی گئی تھیں۔دلچسپ امرہے کہ سیاست کے یہ پست ذہن لوگ اس نوع کا کام کرنے کیلئے جہازوں کو استعمال میں لاتے رہے ہیں۔سیاست میں اس قسم کی تصویری ٹمپرنگ کا الزام دونوں مرتبہ دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں پر عائد کیاگیاجو عورتوں کے حوالے سے اپنے مخصوص متعصب نظریات رکھتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی طرف سے عائشہ گلالئی کو جماعت جوائن کرنے کی دعوت دینا ایک مثبت تبدیلی ہے۔ 77میں قائم ہونے والے قومی اتحاد اور 88میں خفیہ والوں کے مہیاکردہ فنڈز کی بدولت معرض وجود میں آنے والے اسلامی جمہوری اتحاد نے ان روایات کو آگے بڑھایا۔ یہ وہی پردہ نشیں ہیں جن پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کرنے کے واسطے اسامہ بن لادن سے فنڈز لینے کے الزامات بھی عائد کئے گئے تھے۔میموگیٹ فیم حسین حقانی کبھی کسی زمانے میں میاں نوازشریف کے انفارمیشن ایڈوائزر ہوا کرتے تھے ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب میاں نوازشریف صاحب وزیر اعلیٰ اور محترمہ وزیر اعظم ہوا کرتی تھیں۔ حسین حقانی کی ’’شہرت ‘‘ ہٹلر کے پروپیگنڈہ اسپیشلسٹ پاول جوزف گوئبلز سے کم نہیں تھی۔موصوف نے اپنے زیر سایہ دائیں بازو کے کسبیوں کی ٹیم بٹھارکھی تھی جو محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری پر کیچڑ اچھالنے کے نت نئے الزامات تراشتی رہتی تھی۔وزارت عظمیٰ کے انتخاب کے لئے شاہد خاقان عباسی نے221جبکہ شیخ رشید نے صرف 33ووٹ لے کر یہ امتحان ’’امتیازی ‘‘ نمبروں کے ساتھ پاس کیاہے۔شیخ رشید جیسے ہونہار بروا بھی کبھی میاں نوازشریف الیون کے سینٹر فارورڈہوا کرتے تھے ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میاں صاحب ،شیخ رشید کی پرفارمنس پر ان کا منہ چوم لیاکرتے تھے۔ شیخ صاحب کی ڈیوٹی یہ ہوا کرتی تھی کہ جونہی محترمہ بے نظیر بھٹو قومی اسمبلی میں تشریف لائیں یہ ان پر آوازے کسیں۔مخالفین کہتے ہیں کہ انہوں نے اس نوع کا ادب اعلیٰ ’’اس بازار میں‘‘ کے خالق اور استادکے ہاں زانوئے ادب تہ کرتے ہوئے حاصل کیاتھااس لئے وہ اس کام میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ جس مقام ِخاص پر شیخ رشید ، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے لئے آوازے کسا کرتے تھے عین اسی مقام پر انہوں نے مریم نواز کے لئے کلمات ادا کئے تو عابد شیر علی اور کیپٹن صفدر ان کی طر ف لپکے ۔کیایہ واقعہ محض ایک اتفاق ہے یا مکافات ِ عمل، آپ اس کا فیصلہ خود کیجئے !
ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ عورتوں کو معتوب کرنے کیلئے ’’مردانہ وار‘‘ ہتھکنڈے استعمال کئے گئے ۔ گلالئی نے کپتان کی ذات کے حوالے سے سنگین الزامات عائد کئے ہیں ۔انہوں نے عمران خان اور میاں نوازشریف کا موازنہ کراتے ہوئے قراردیا کہ میاں صاحب عورتوں کی قدر کرنا جانتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ میاں صاحب نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت بھی کیااور ان کی شہادت پر روئے بھی لیکن اس سے قبل انہوں نے محترمہ کو عورت سمجھ کر وہ تما م حربے آزمائے جو ہمارے ہاں روایتی سیاست میں رائج رہے ہیں۔ گلالئی کی پریس کانفرنس اور بعدازاں جے آئی ٹی ٹائپ اینکر ز نے جو انٹرویوز کئے ان میں تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ’’ کپتان کے کردار پر خود کش حملہ فکسڈہے ‘‘۔ عائشہ کے الزامات اور میڈیا میں ان کے انٹرویوز پرتبصرہ کرتے ہوئے نکتہ دانوں کا کہنا ہے کہ گلالئی نے اسائن منٹ تو بنا لی لیکن VIVA(زبانی امتحان ) میں فیل ہوگئیں۔یعنی ایف ایس سی کے امتحان میں تو کارکردگی دکھائی لیکن انٹری ٹیسٹ میں کمپارٹ آگئی۔ عمران خان کی ریحام خان سے شادی کی خبر بریک کرنے والے سینئر صحافی جو ’’عمرانیات ‘‘ کے اسپیشلسٹ مانے جاتے ہیںانہوں نے فرمایا کہ 10کروڑ روپیہ ادا کیاگیا۔بعدازاں یہ رقم 5کروڑ روپے بیان کی گئی ۔سینئر صحافی سے تفصیلات پوچھی گئیں تو انہوں نے اپنے معتبر ذرائع کے حوالہ دیتے ہوئے انکشاف کیاکہ انہیں پی ٹی آئی کی ایک خاتون نے کہاتھا۔پی ٹی آئی نے عائشہ گلالئی کو نوٹس دیاہے کہ وہ وزارت عظمیٰ کے انتخاب میں ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے قومی اسمبلی نہیں گئیں ۔یہ الزام کپتان پر بھی عائد کیاجاسکتاہے کہ انہوں نے شیخ رشید کو وزیر اعظم کا امیدوار نامزد کیااور انہیں ووٹ کاسٹ کرنے نہیں گئے۔نہ صرف خود ووٹ کاسٹ کیا بلکہ جہانگیر ترین کے امیر ترین ووٹ سے بھی شیخ صاحب کو محروم رکھا ۔کپتان اورجہانگیر ترین اس دن اکٹھے تھے لیکن قومی اسمبلی کے سیشن میں نہ گئے۔پریس کانفرنس میں امیر مقام سے سوال کیاگیاکہ یہ آپ کا بہت بڑا کریڈٹ تھاکہ آپ نے عائشہ گلالئی کے ذریعے عمران خان کو بیک فٹ پرکیالیکن آپ تردید کرکے اپنے اتنے بڑے کارنامے سے دستبردار ہوگئے؟ اس سوال پر امیر مقام مسکرادئیے اور انہوں نے کہاکہ کے پی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد آسکتی ہے۔پریڈ گرائونڈ میں عمران خان نے مولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری کو الٹی میٹم دیاتھاکہ اب ان کی باری ہے لیکن ان سے قبل گلالئی کے ہاتھوں اخلاقی اسٹیمپ آئوٹ ہوگئے تاہم یہ فیصلہ تھرڈ ایمپائر کے طور پر عوام ہی کریں گے کہ کپتان آئوٹ ہیں یانہیں!!! ویسے یہ دلچسپ منطق ہے کہ کپتان کو شاہ محمود قریشی، فردوس عاشق اعوان ،نذر محمد گوندل اور بابر اعوان جیسے ’’ریٹائرڈ‘‘ جیالے تو دودھ کے دھلے دکھائی دیتے ہیں لیکن آصف زرداری قبول نہیں ۔

تازہ ترین