• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ڈائری:قومی سیاست بدستور نوا زشریف کے گرد گھوم رہی ہے

اسلام آباد( محمد ظالح ظافر/ خصوصی تجزیہ نگار) ماضی قریب کی طرح قومی سیاست بدستور سبکدوش وزیر اعظم نواز شریف کے گرد گھوم رہی ہے  ایک جانب انکے طرفدار ہیں جبکہ دوسری سمت انکے مخالفین ہیں یہ انداز سیاست گزشتہ سوا چار سال میں زیادہ شدت کے ساتھ کارفرما رہا ہے ، پاکستان کی سیاست کے اسرار و رموز سے شناسا لوگوں کو بخوبی علم ہے کہ ملک عزیز اور اسکے قرب و جوار میں رونما ہونے والے  واقعات میں ہمیشہ سے ان بین الاقوامی ہاتھوں کی کارفرمائی رہی ہے جو دنیا اپنے اشارے پر چلانے کے خواہاں ہیں، یہ سلسلہ ہر گز نیا نہیں بلکہ نصف صدی سے زیادہ پرانا ہے سرد جنگ کے عہد میں اس کی شکل قدرمختلف ہوتی تھی تقریباً ہر آزاد ملک میں دو نظریاتی دھڑوں کی تقسیم موجود تھی اور یہ انداز لگانا مشکل نہیں ہوتا تھا کہ کون کس کی ہمنوائی کر رہا ہے  سوویت یونین کے مسمار ہوتے ہی بیرونی اشاروں کا رنگ ڈھنگ بدل گیا رسل و رسائل ، مواصلاتی نظام اور ابلاغ کے جدید ترین ذرائع نے اس حوالے سے ’’ طریق واردات ‘‘ میں بہت بڑی تبدیلی وارد کر دی بیرونی اشارے اب ان جدت طرازیوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، جنوبی ایشیا میں ان ذرائع کو استعمال کرکے اپنے ڈھب کے نتائج حاصل کئے جارہے ہیں مستحکم اور توانا پاکستان اسکے معروف دشمنوں ہی نہیں بعض دکھائی دینے والے دوستوں کو بھی گوارا نہیں ہے پاکستان کو منتشر کرنے کیلئے یہاں لگاتار اور نت نئے ہتھکنڈے آزمائے گئے۔ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کی صورت دینے والوں نے لسانی عصبیت کو کارگر ہتھیار سمجھا یہ بچے کھچے پاکستان کے ماحول پر زیادہ اثر انداز نہیں ہو سکا۔ ابتداً زبان کے ذریعے نفاق کا بیج بونے کی کوششیں ضرور ہوئیں وہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکیں اسکے بعد فرقہ وارانہ آویزش کو آزمایا گیا  یہ حربہ بھی ناکام ثابت ہوا۔ دہشت گردی کو رواج دیا گیا  جسے حکمرانوں نے بھاری قیمت ادا کرنے کے بعد بڑی حد تک قابو پا لینے میں کامیابی حاصل کرلی ۔ اب غیر معمولی طور پر بھاری سرمایہ کاری کے ذریعے سیاسی چپقلش کو ایسی عصبیت کے طور پر معاشرے میں راسخ کر دیا گیا ہے کہ وہ قبائلی تصادم کا روپ دھارگئی ہے۔ نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے محروم کر دیا گیا اور اس سے پہلے کم و بیش اڑھائی سال سے انکی کردار کشی کی  ایسی مہم جاری و ساری ہے جس میں دنیا کی کوئی برائی ایسی نہیں جو نواز شریف اور انکے خانوادے سے منسوب نہ کی گئی ہو ، اس مقصد کیلئے ایسے بدزبانوں کی خدمات حاصل کی گئیں جو اس واردات کو انجام دینے میں یدطولیٰ رکھتے تھے ، نواز شریف ایوان وزیراعظم سے رخصت ہوئے تو انکے حامیوں کی تعداد صاف طور پر بڑھی دکھائی دے رہی تھی انکے مخالفین کا کوئی جادو انکے چاہنے والوں پر اثر انداز نہیں ہو سکا۔ نواز شریف کے ناقدین ان کی شخصی شرافت اور دیانت داری کے  حوالے سے کسی بات پر ایمان لانا تو درکنار اسے سننے کیلئے بھی آمادہ نہیں کم و بیش یہی کیفیت نواز شریف کے بڑے بڑے حریفوں کی ہے جنہیں انکے پیروکار فرشتہ ثابت کرنے کے لئے تلے رہتے ہیں حالانکہ ان میں سے اکثر کی کرتوتیں نمایاں ہونے کیلئے کسی ثبوت کی محتاج نہیں اس طرح پاکستان کا معاشرہ ایسی خوفناک تقسیم کا شکار ہوگیا ہے جو گھروں اور کنبوں میں راسخ ہوگیا ہے  جسکی کارفرمائی گلی محلے میں پیوست ہوگئی ہے  یہی نہیں طرفین ایک دوسرے کے بارے میں ایسی زبان استعمال کرتے ہیں کہ شرافت کو پسینہ آجاتا ہے اس تقسیم نے باقاعدہ عصبیت کی شکل اختیار کرلی ہے اس میں شائستگی کا خون ہوگیا ہے انتخابی معرکہ آرائی جب بھی ہوگی یہ ہولناک مناظر کو جنم دے گی اور نتائج بھی شاید کم و بیش وہی رہیں جو گزشتہ عام انتخابات کے بعد سامنے آتے تھے شکست خوردگان ایک مرتبہ پھر اپنی پرانی گردان پر کاربند رہیں گے اور بلی چوہے کا کھیل ہمارے معاشرے کو دامن گیر رہے گا ۔ اس کھیل کو شروع کرانے کیلئے بحیرہ اوقیانوس کی دوسری جانب سے بھرپور رسد فراہم کی گئی جس کا بنیادی مقصد پاکستان کو ہر حال میں اپنا دست نگر بنائے رکھنا تھا وہ نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان کا چین سے اشتراک عمل ایک خاص حد سے آگے بڑھے وہ پاکستان کو مغمول رکھنا چاہتے تھے اسے لگاتار مبتلائے انتشار دیکھنے کے خواہاں تھے، پاکستان کا جن کے ساتھ مل کر اقتصادی راہداری تعمیر کرنا انہیں ہر گز گوارا نہیں تھا انہیں ایسا پاکستان ہی گوارا تھا جو بھارت کے سامنے کھڑا ہونے کی سکت سے محروم ہو۔ اسی مذموم مقصد کو حاصل کرنے کیلئے پاکستان کی ایسی حکومت اور اسکے سربراہ کو ہدف بنایا گیا جس نے نتائج کی پرواہ کئے بغیر ہر وہ کام کیا جو پاکستان کوگرداب سے نکالنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا تھا۔ پاکستان میں چار دہائیاں قبل ایک وزیراعظم کو عبرت کا نمونہ بنانے کی دھمکی دی گئی پھر اس پر عمل کرکے بھی دکھا دیا گیا ۔ ایسا ہی ایکشن ری پلے اب پھر دکھائی دے رہا ہے ہر چند حالات میں واضح تبدیلی آچکی ہے جس کا تعلق عوام کے شعور سے ہے ۔ یہ عوامی شعور ہی ہے جو نواز شریف کے خلاف کارروائی کے سامنے ڈٹ گیا ہے ، مریم نواز شریف نے جوڈیشل اکیڈمی کے سامنے روزے کی حالت اور پگھلا دینے والی تمازت میں کھڑے ہو کر یہ نعرہ مستانہ بلند کیا تھا کہ نواز شریف کو اس قدر مجبور نہ کیا جائے کہ وہ اپنے سینے میں دفن رازوں کو اگل دینے پر اتر آئیں اس کا مطلب بعض نام نہاد دانشوروں کو شاید سمجھ نہیں آسکا تھا۔رائے عامہ نے اسے بخوبی بھانپ لیا تھا پاکستان کے بین الاقوامی دشمن اور انکے کارندے ابھرتے منظر سے خوفزدہ ہیں۔

تازہ ترین