• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صرف 11 اگست کی تقریر! تحریر:محمد صادق کھوکھر…لیسٹر

پاکستان میں قائد اعظمؒ کی ایک تقریر کا تذکرہ عام دنوں عموماً اور قومی دن کے موقع پر خصوصاً اس تکرار اور شد و مد سے کیا جاتا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا انہوں نے اپنی زندگی میں صرف ایک ہی تقریر کی تھی۔ یعنی گیارہ اگست 1947 کی تقریر اور اس کے بعد انہوں نے ہمیشہ کے لیے خاموشی اختیار کر لی تھی۔ کوئی اٹھتا ہے اس تقریر کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کی بات کرتا ہے۔ دوسرا اسے آئین کا حصہ بنانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ کوئی اس سے سیکولرازم کشید کر رہا ہوتا ہے اور کسی کی نظر میں پاکستان کے تمام مسائل کا حل فقط یہی تقریر ہے۔ لیکن اب دو چار برسوں سے ایک نیا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے کہ قائد اعظمؒ کی یہ تقریر سرکاری ریکارڈ سے ہی غائب کر دی گئی ہے۔ ان شوشوں سے عام پاکستانیوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کونسی تقریر ہے جس کا اتنا بڑا چرچہ ایک مخصوص طبقے میں ہوتا رہتا ہے۔ یہ حضرات قائد اعظمؒ کی ساری تقریر نظر انداز کر کے اس کے جو مخصوص جملے بیان کرتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔ "آپ آزاد ہیں۔ آپ کو اپنے مندروں میں جانے کی آزادی ہے، آپ اپنی مساجد میں جانے کے لیے آزاد ہیں یا پاکستان کی اس ریاست میں کسی بھی دوسری عبادت کی جگہ۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا ذات یا مسلک سے ہو اس کا ریاست کے کارو بار کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ "ان چند جملوں پر سیکولرازم کی پوری عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔ حالانکہ ان الفاظ سے جو بات ثابت ہوتی وہ صرف مذہبی رواداری کی ہے۔ سیکولر حضرات اپنے طور پر فرض کر لیتے ہیں کہ اسلام میں مذہبی رواداری نہیں ہوتی۔ حالانکہ اس طرح کی بات صرف جہلا ہی کر سکتے ہیں۔ ورنہ جب ہم قرآن و سنت کی تعلیمات پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے اسلام خود مسلمانوں کو عدل و انصف اور دوسروں کے ساتھ روادای برتنے کا درس دیتا ہے۔ قائد اعظمؒ نے اگر مذہبی رواداری کی بات کہی تھی تو یہ انہی تعلیمات کا تقاضا تھا۔ تقسیمِ ہند کے موقع پر چونکہ دونوں طرف فسادات شروع ہو گئے تھے خاص طور پر مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہو رہا تھا اس لیے غیرمسلموں کو یقین دلانا اشد ضروری تھا کہ اسلام غیر مسلموں کے حقوق پامال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس وقت جو لوگ ردِ عمل میں غلط حرکات کر رہے تھے ان کی اصلاح بھی ضروری تھی۔ در حقیقت اس بیان کا مقصد بھی غیر مسلموں کے حقوق کا دفاع تھا۔ قائد اعظمؒ تو اپنی تقاریر میں اسلامی نظامِ زندگی کا ذکر اکثر کرتے رہتے تھے۔ وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے جس میں اسلام اور اسلامی نظریہ حیات کا ذکر نہ ہو۔ کبھی امریکیوں کے سامنے ان کے قومی دن کے موقع پر اسلام کے عالمگیر نظام کو پیش کرتے۔ کبھی آسٹریلیا کے عوام سے مخاطب ہو کر انہیں اسلام کا صحیح تصور سمجھاتے۔ وہ غیر ملکیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے بھی اسلام کے متعلق معذرت خواہانہ لہجہ اختیار نہیں کرتے تھے۔ قائد اعظمؒ نے قرار داد پاکستان کے بعد ایک دفعہ بھی اپنی تقاریر میں سیکولرازم کا لفظ تک ادا نہیں کیا تھا ۔ پھر نہ جانے ان کے بیانات اور تقاریر سے سیکولرازم کہاں سے برآمد کر لیا جاتا ہے؟ جہاں تک اس تقریر کے ایک جملے کا تعلق ہے کہ مذہب کا ریاست کے کارو بار کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ معروف مصنفہ سلینہ کریم نے اپنی تحقیق میں یہ بات ثابت کی ہے کہ اس جملے کا کوئی حوالہ جسٹس منیر کی انکوائری رپورٹ سے قبل نہیں ملتا۔ جسٹس منیر نے ہی سب سے پہلے ان الفاظ کو ان سے منسوب کیا تھا۔ ان سے قبل کسی محقق نے ان الفاظ کو قائدِ اعظم سے منسوب نہیں کیا تھا۔ جسٹس منیر ہمیشہ سیکولرازم کے پرجوش وکیل رہے تھے۔ انہوں نے ہی سب سے پہلے مارشل لاء کو جواز بخشا تھا۔ بی بی سی اور آل انڈیا ریڈیو کے پاس اس زمانے کے رہنماؤں کے بیانات اور تقاریر موجود ہیں۔ یہ تقریر بڑے اہم موقع پر کی گئی تھی۔ ان کے پاس یہ بھی ضرور ہو گی۔ اگر یہ الفاظ ہوتے تو وہ ضرور منظرِ عام پر لاتے۔ مخالفین تو چاہتے تھے کہ قائدِ اعظم کی کردار کشی کی خاطر ان کا دوغلہ پن ظاہر کریں لیکن وہ سچے اور کھرے رہنما تھے۔ اس لیے ان کے مخالفین ناکام رہے آج پاکستانی قوم کو گمراہ کرنے کی خاطر شک کا بیج بویا جا رہا ہے۔ کسی نے یہ الفاظ غائب نہیں کیے۔ اہم تقاریر کے ریکارڈ صرف کسی ایک کے پاس نہیں ہوتے۔ بلکہ بار بار لوگوں کو سنائے جاتے ہیں۔ سیکولر حضرات تو اس تقریر کو بائبل کا درجہ دیتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر وہ ان الفاظ کا اصلی حوالہ پیش نہیں کر سکتے تو اس سے یہی حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ یہ صرف افسانہ ہے۔ ویسے بھی فقط ایک تقریر سے قائدِ اعظمؒ کو سیکولرازم کا علمبردار ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ سچائی یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان اور نام نہاد دانشور قائدِ اعظمؒ کے فرمودات کو مشعلِ راہ بنانا ہی نہیں چاہتے۔ ورنہ ان کی بے شمار تقاریر ہیں۔ ان سے کیوں روگردانی کی جا رہی ہے۔ اگر ساری نہیں تو صرف آخری دو سالوں کی تقاریر کو ہی تعلیمی نصاب کا حصہ بنا لیا جائے تو بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔ قائد اعظمؒ کے مخالفین بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ سچے اور کھرے انسان تھے۔ آخر ایک تقریر سے کیا ثابت کیا جا رہا ہے؟ کیوں تضاد پیدا کیا جا رہا ہے؟ جو کام مخالفین نہیں کر سکے ہمارے ہم وطن سر انجام دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ لیکن ایسا کرنا آسان نہیں۔ قائد اعظمؒ نے قیامِ پاکستان کے مطالبے کا پسِ منظر بیان کرتے ہوئے فرمایا: 'مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں وہ خود اپنی تہذیبی ارتقاء اپنی روایات اور اسلامی قانون کے مطابق حکمرانی کر سکیں ( 19مارچ 1944مسلم سٹودنٹس فیڈریشن لاہور) اسلامی نظامِ معیشت کے متعلق انہوں نے سٹیٹ بنک کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا تھا " سٹیٹ بنک آف پاکستان مملکت کے لیے ایک ایسا ٹھوس اقتصادی نظام تیار کرے گا جو اسلامی اصولوں کے مطابق ہوگا "اس طرح کی تقاریر اور بیانات صرف ایسے رہنما ہی دے سکتے ہیں جن کا اسلامی نظریہ حیات پر کامل یقین ہو۔ جو لوگ دین کو انسان کا ذاتی مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ وہ اسلامی قوانین یا اسلامی نظامِ معیشت کے نفاذ کے اعلانات نہیں کرتے۔ اس لیے یہی کہا جا سکتا ہے ہمارے اکثر دانشور جان بوجھ کر قوم کو مسلسل فکری بحران میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں۔

تازہ ترین