• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنرل اسمبلی :عالمی ضمیر کو وزیراعظم کا پیغام پاکستان کسی کیلئے قربانی کا بکرا نہیں بنے گا

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا حالیہ سالانہ اجلاس پاکستان کے لئے اس بناء پر بڑی حساسیت کا حامل تصور کیا جارہا تھا کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ جاری کی گئی نئی امریکی افغان پالیسی میں امریکی فوج کشی کے نتیجے میں شروع ہونے والی سولہ سال سے جاری افغان جنگ میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر اور اسلام آباد کو کھلی دھمکیاں دے کر اپنے عوام اور عالمی برادری کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ سب سے بڑی عالمی طاقت اور اس کا ساتھ دینے والے درجنوں انتہائی ترقی یافتہ ملکوں کی جدید ترین ہتھیاراور بے مثال مہارت رکھنے والی افواج محض پاکستان کی وجہ سے افغانستان کے خاک نشینوں کی مزاحمت کو ختم نہیں کرسکی ہیں۔تاہم پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے فوری طور پر صدر ٹرمپ کے بے بنیاد الزامات کا مسکت جواب دیتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی بے مثال جدوجہد ، نتیجہ خیز کامیابیوں اور افغان امن عمل کے لئے کی جانے والی کاوشوں کے حوالے سے امریکہ سمیت پوری دنیا سے پاکستان کے مثبت کردار کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا جس کا چین اور روس جیسی بڑی طاقتوں سمیت عالمی برادری کی جانب سے پاکستان کے موقف کی تائید میں بڑا حوصلہ افزاء ردعمل سامنے آیا اور خود امریکہ میں صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی دھمکیوں پر سخت تنقید کی گئی۔ اس تناظر میں جنرل اسمبلی سے وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کے خطاب پر پوری دنیا کی نگاہیں لگی ہوئی تھیں جن کے لئے سب سے بڑے بین الاقوامی فورم میں اپنے ملک کی نمائندگی کا یہ پہلا موقع تھا اور اہل پاکستان کے لئے یہ امر نہایت اطمینان بخش ہے کہ وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی میں افغان جنگ ، دہشت گردی اور خطے میں بھارت کے منفی کردار کے حوالے سے پاکستان کا جائز اور معقول موقف بڑے اعتماد کے ساتھ پاکستان کی کوششوں اور قربانیوں کی تفصیلات پر مشتمل واقعاتی حقائق کی روشنی میں متاثر کن دلائل و شواہد کے ساتھ پیش کیا اور دوٹوک الفاظ میں دنیا کو بتادیا کہ کسی بھی طاقت کی جانب سے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے پاکستان کو قربانی کا بکرابنانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔ پاکستانی وقت کے مطابق جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب میں کیے گئے اس خطاب میں وزیر اعظم عباسی کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی بے شمار قربانیوں کے بعد افغانستان میں سیاسی اور فوجی تعطل کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانا حقائق کے منافی اور پریشان کن ہے۔پاکستان افغانستان کی جنگ اپنی سرزمین پر لڑنے کے لئے تیار نہیں۔انہوںنے صدر ٹرمپ کی جانب سے سولہ سال میں کامیابی حاصل نہ ہونے کے باوجود افغان مسئلے کے سیاسی کی بجائے فوجی حل کے عزائم کے حوالے سے واضح کیا کہ ہم کسی ایسی ناکام حکمت عملی کا ساتھ نہیں دیں گے جو افغانستان و پاکستان اور خطے کے دوسرے ملکوں کے لئے مسائل میں اضافے کا سبب بنے۔ وزیر اعظم نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کےجنگی جرائم کی مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ سےخصوصی نمائندے کے ذریعے ان کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزیاں کرکے کشیدگی کو ہوا دینے کے رویے کے حوالے سے وزیر اعظم نےکہا کہ بھارتی اشتعال انگیزیوں پر پاکستان کی جانب سے تحمل کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے لیکن اگر بھارت لائن آف کنٹرول پر مہم جوئی یا پاکستان کے خلاف محدود جنگ کے نظریے پر عمل کرتا ہے تو پاکستان اس کا ویساہی جواب دے گا۔ میانمار میںروہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی روکنے اور فلسطین میں اسرائیلی مظالم بند کرانے کی جانب بھی وزیر اعظم عباسی نے عالمی برادری کو پرزور انداز میں متوجہ کیا۔ جنرل اسمبلی میں خطاب سے پہلے امریکی کونسل آف فارن ریلیشنزکے ارکان سے بھی وزیر اعظم نے خطاب کیا اور ان کے سوالوں کے جوابات دیے۔انہوں نے پاکستان کے اس قطعی قابل فہم موقف کا اعادہ کیا کہ افغانستان میں امن خود پاکستان کی ضرورت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے پاکستان گوناگوں مسائل کا شکار ہے۔انہوں نے دوٹوک الفاظ میں یقین دہانی کرائی کہ پاکستان میں کسی حقانی نیٹ ورک کا کوئی وجود نہیں ہے اور مسلح تنظیموں کے تمام محفوظ ٹھکانے افغان سرزمین پر ہیں جہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کی جاتی ہیں۔اس مجلس میں وزیر اعظم نے پاکستان کے پاس ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کے پروپیگنڈے کی غیرمبہم الفاظ میں تردید کی اور بتایا کہ بھارت کی جانب سے جوہری میدان میں مسلسل پیش رفت کی بناء پر پاکستان نے اپنے دفاع کے لئے چھوٹے ایٹمی ہتھیار بھی بنائے ہیں لیکن وہ سب مکمل طور پر محفوظ اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے ماتحت ہیں اور ان کی کمان سویلین ہاتھوں میں ہے۔وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے بھی ملاقات کی جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کامیاب کوششوں اور بے مثال قربانیوں کو پوری کشادہ دلی سے سراہا۔ امریکی نائب صدر سے تفصیلی گفت و شنید کے علاوہ صدر ٹرمپ نے بھی وزیر اعظم عباسی سے ایک مختصر ملاقات میں پاکستان سے بہتر روابط کی ضرورت کا اعتراف کیا۔ بحیثیت مجموعی وزیر اعظم عباسی کی جانب سے امریکہ میں پاکستان کے لئے ناسازگار حالات کے خدشات کے باوجود امریکی اداروں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی نمائندگی اطمینان بخش طور پر کی گئی ، الزامات کے مدلل جوابات دیے گئے اور حقائق کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف کیے جانے والے بے بنیادپروپیگنڈے کا ازالہ کیا گیا۔ امید ہے کہ عالمی برادری افغان مسئلے اور تنازع کشمیر کے منصفانہ سیاسی حل کے حوالے سے پاکستان کے موقف کی صداقت کا احساس کرتے ہوئے اس مقصد کے لئے اپنا کردار نتیجہ خیز طور پر ادا کرے گی تاکہ افغانستان اور جنوبی ایشیا میں پائیدار بنیادوں پر امن و استحکام قائم ہو اور پورے خطے کے لئے ترقی اور خوشحالی کی راہیں کشادہ ہوسکیں۔

تازہ ترین