• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رکشے کی ٹکرنےجہاں گاڑی کو سخت نقصان پہنچایا تھا وہاں ہمارا انجر پنجر بھی ہل کے رہ گیا ۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ایک چھوٹے سے رکشے نے اتنی بڑی کار کو اپنی ٹکر سے کیسے اتنا بڑا جھٹکا دیا ،کار کو بھی خاصا نقصان پہنچا تھا۔ ٹریفک پولیس والے بھی پہنچ گئےتھے ، رکشہ چلانے والا ایک کم عمر لڑکا تھا جس کےپا س ڈرائیونگ لائسنس تو کیا ابھی شناختی کارڈ بھی نہیں بنا تھا۔ کار میرا دوست عثمان چلارہا تھا اور اسکے ساتھ وا لی نشست پر میں اورپچھلی نشست پر عثمان کےچچا چنگیز صاحب جو35 سال سے امریکا میں مقیم تھے اور اتنے ہی عرصہ کے بعدپاکستان آئےتھے تشریف فر ما تھے، اور وہ راولپنڈی کے شہر جہاں انکی جوانی اور لڑکپن کا وقت گزارا تھا اسکو دیکھناچاہتےتھے ،کالج روڈ لیاقت باغ کا کالج جہاں انہوں نے تعلیم حاصل کی تھی اسکا نظارہ کرنا چاہتےتھے اور اسی مقصد کےلیے ہم پچھلے ایک دو گھنٹوں سے راولپنڈی کی مختلف سڑکوں پر گھوم رہےتھے ۔چنگیز صاحب نے بتایا کہ کالج میں تعلیم کے دوران فری اوقات میں کس طرح کالج روڈکے ایک ٹی اسٹال پر گھنٹوں صرف اس وجہ سے بیٹھے رہتےتھے کہ وہاں چائے کے ساتھ ساتھ آپکی فرمائش پر گانے بھی لگائےجاتےتھے۔ وہ ہمیں اپنی طالب علمی اور اپنے لڑکپن کے زمانےمیںپنڈی اور خصوصاً اندرون شہر کے حالات و واقعات سناتے رہے۔ اپنے اساتذہ کا ذکر کرتےرہے لیکن وہ جہاں راولپنڈی کی شاہرائوں کی وسعت کی بات کرتے،وہاں راولپنڈی میں ٹریفک کا رش اور سڑکوں پر انکی بے ہنگم آمدورفت کی بات بھی کرتےرہے،وہ امریکا میں طویل قیام کے حوالےسے اپنے تجربات اور مشاہدات سے بھی ہمیں آگاہ کرتےرہے ،لیکن وہ زیادہ ہم سے سننا چاہتےتھے اور ہم سے بار بار سوالات بھی کرتےجارہےتھے میرا دوست عثمان جوچنگیزصاحب کابھتیجا تھااور پاکستان کےاچھے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کیے ہوئے ہے، وہ گاڑی چلانے کے ساتھ ساتھ ٹرمپ کی پالیسیوں پر بھی خوب تنقید کر رہا تھا۔ وہ شمالی کوریا ، ایران ، شام اور مصر کے اندرونی حالات کوبیان کر رہا تھا کہ کس طرح امریکا نے وہاں حالات خراب کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے، عثمان کو افغانستان کے حالات کی ساری خرابیاں بھی معلوم تھیں وہ بتا رہا تھا کہ افغانستان کے حالات کس طرح بہتر ہوسکتے ہیں ، عثمان نے روہنگیا کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر بھی ایک جذبات سے بھرپور تقریر کر دی ۔ بنگلہ دیش میں طویل عرصہ سے پھنسے ہوئے ان پاکستانی مہاجرین کے حق میں بھی ان سے ہمدردی کا اظہار کرتےہوئے بتایا کہ کس کس طریقےسے انہیں پاکستان واپس لاکر بسایاجاسکتاہے۔ عثمان کو اس بات پر بھی غصہ تھا کہ افغان مہاجرین اب تک پاکستان میں کیوں رہ رہے ہیں،جبکہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھےجانے والے سلوک پر بھی عثمان سیخ و پا تھا۔ اس نے اس امر پر بھی تفصیلی رو شنی ڈا لی کہ ترکی نے کس طرح اپنی معیشت کو بہتر کیاہے اور کیسے عوام نے منتخب حکومت کا ساتھ دے کر وہاں تختہ الٹنے کی سازش کو ناکام بنایا تھا۔ وہ بھارت کے کشمیریوں پر ظلم و ستم پر بھی نالاں تھا اور دنیا کے مختلف ممالک کی طرف سے اس حوالے سے بے رخی کا ذکر بھی اس نے بڑے بوجھل دل سے کیا ۔ چنگیز صاحب اپنے بھتیجے کے ان نقاط کو غورسےسنتےرہے کبھی کبھار وہ عثمان کے نقاط پر میری رائے بھی جاننے کےلیے مجھ سے بھی سوال کردیتے اور میں اپنی رائے دے دیتا ۔ چنگیز صا حب کئی مر تبہ عثما ن کو اسکی غلط ڈ را ئیو نگ پر بھی ٹو ک چکےتھے۔ ہم اس بحث و مباحثہ میں نہ صرف راولپنڈی کے مختلف علاقوں اور شاہرائوں پر گھومتے رہے بلکہ کبھی چائے تو کبھی سموسے اور کھانے والی دیگر اشیاء سے بھی لطف اندوز ہوتے رہے کہ اچانک رکشے والے نے کار کو ٹکر مار کر عثمان کی کار کو اچھا بھلا ڈینٹ ڈال دیا بلکہ ہماری طویل بحث کو بھی موقوف کرادیا ۔ شاہرائوں پر حادثات ہوتےرہتے ہیں لیکن یہ ٹکر سیدھی سیدھی اس لڑکے کی لاپروائی تھی۔ ٹریفک پولیس والا ہماری حمایت میں تھااور اس لڑکے سے کہہ رہاتھا میں اب تمہارا رکشہ بھی اور تمہیں بھی بند کرا دوں گا ،ہمیں سمجھ نہیںآرہی تھی کہ کیا کیا جائے۔ بالآخر ہم نے معاملہ ٹریفک پولیس کے حوالے کیا اور کار کو نقصان اس رکشہ والے سے وصول کرنے کی بجائے خود ہی ٹھیک کروانے کا فیصلہ کرکے وہاں سے نکل آئے ۔کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد عثمان نے چنگیز صاحب سے امریکا کے حوالے سے ایک سوال کردیا۔ چنگیز صاحب نے اسکے سوال کا جواب دینے کی بجائے ہم سے مخاطب ہوتےہوئے کہا کہ بحیثیت پاکستانی ہم میں ایک بہت بڑی خامی ہے کہ ہم دنیا کے حالات پر تو بھرپور نظر رکھتے ہیں اسکے حوالے سے اپنا بھرپور تجزیہ دیتے ہیں ملک کی خارجہ پالیسی کیا ہونا چاہیے ۔ ہمیں اس پر بحث کرنے کا بھی بہت شوق ہے ، ہمارے پاس دنیا بھرمیں ہونیوالی زیادتیوں پر کڑھنے اورجلنے کے لیے بھی بے تحاشہ وقت ہے ۔ افغانستان ، شام اور عراق میں امن کےلیے ہم بھرپور تقریر کرنا جانتے ہیں ۔ ہوسکتا ہے ان سارے عوامل کا علم رکھنا اچھی بات بھی ہو لیکن ہم ان معاملات پر نہ گفتگو کرتے ہیں اور نہ اس حوالے سے اپنے فرائض کا ادراک کرتے ہیں جو معا ملا ت ہمارے اپنے ملک کے شہروں، قصبوں گلی محلوںاور بازاروں میں ہوتےہیں اور ہم جنہیں تھوڑی سی کوشش سے اگر ٹھیک نہیں بھی کرسکتے لیکن یہ ضرور ہے کہ اس کا آغاز ضرور کرسکتے ہیں۔ ہم بڑے بڑے ملکوںکے صفائی اور ٹریفک کے نظام کی تعریفیں تو کرتے ہیں لیکن اپنے ہی ملک میں صفائی اور ٹریفک میں بہتری لانےکےلیے خود کچھ نہیں کرتے ۔ ہم امریکا پر بھرپور تنقید کرتےہیں لیکن اپنی خرابیوں کاجائزہ لینا نہیںچاہتے، یعنی جو کام ہماری دسترس میں ہیں وہ کرنے کےلیے تیار نہیں اورجو دسترس سے بہت دور ہیں اس پر گھنٹوں بحث کرکے خود کو جلاتےرہتے ہیں، ہم خود کو ٹھیک نہیں کرتے اورپوری دنیا کے ٹھیکیدار بننے کےلیے تیار رہتے ہیں، ہمیں اپنا یہ وطیرہ تبدیل کرنا ہوگا ۔ پہلے خود کو اور پھر اپنے قریبی اردگرد کے حالات کو بہتر بنانے کا اصول اپنانا ہوگا پھر کسی دوسرےکےلیے سوچناہے ،میں بھی چنگیز صاحب کی ان باتوں سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں کیا آپ بھی اتفاق کرتے ہیں؟

تازہ ترین