• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں پاک فوج کے آپریشنز کے نتیجے میں دہشت گردوں کی کمر ضرور ٹوٹ گئی ہے لیکن دہشت گردی ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔ اسی لئے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے ساتھ ساتھ سویلین اور عسکری قیادت نے نیشنل ایکشن پلان بنایا تھا جس کے تحت قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو شہری یادیہی علاقوں میں چھپے ہوئے عسکریت پسندوں کی سرکوبی کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اس سے قطع نظر کہ اس پلان پر کس حد تک عملدرآمد ہوا، یہ امر افسوس ناک ہے کہ دہشت گردی کے الزام میں جو لوگ پکڑے گئے ان کا ایک بھی کیس یکم جنوری 2017سے فوجی عدالتوں میں نہیں بھیجا گیا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے نام ایک خط میں اس طرف توجہ دلائی تھی اور حکومت کی سست روی پرتشویش کا اظہار کیا تھا اس پر وزیراعظم نے وزارت داخلہ سے فوری رپورٹ طلب کی جس کے نتیجے میں ایسے 29مقدمات فوجی عدالتوں کو بھیج دیئے گئے ہیں اور مزید 85کیسز کو بھیجنے کیلئے حتمی شکل دے دی گی ہے، آرمی چیف نے وزیراعظم کے نام خط میں لکھا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نیشنل ایکشن پلان پرعملدرآمد میں سنجیدہ ہے تاہم کئی ماہ سے ایک بھی کیس فوجی عدالتوں میں نہیں بھیجا گیا۔ وزیراعظم نے خط کا فوری نوٹس لیا جو اچھا اقدام ہے لیکن انہیں اتنی بڑی تعداد میں دہشت گردی کے مقدمات کو روکنے کی وجوہات اور ذمہ داروں کا تعین بھی کرانا چاہیئے اور ان سے باز پرس کرنی چاہیئے، دہشت گردی پاکستان کا دو دہائیوں سے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ قوم نے اس کے خاتمے کیلئے بڑی قربانیاں دی ہیں لیکن مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں متعلقہ حکام کی غیر ذمہ داری ناقابل فہم ہے یہ اسی غفلت کا نتیجہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر فوج تو اپنے حصے کا کام کر رہی ہے لیکن سول اداروںکی سست روی کے باعث اس پرموثر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ حکومت کو اس جانب توجہ دینی چاہیئے اور دہشت گردی اور انتہاپسندی کےخاتمے کی کارروائیاں تیز کرنی چاہئیں اور مقدمات بھی چلانے چاہئیں۔

تازہ ترین