• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی منظر نامہ، استعفوں نےن لیگ کیلئےخطرے کی گھنٹی بجادی

اسلام آباد(طاہر خلیل)پردہ سیمیں دھیرے دھیرےسرکنے لگا تو ایوان سے سڑکو ں پر آنے والوں کی چہرہ رونمائی کے کھیل کاآغاز ہوگیا۔ رانا ثناء اللہ کااستعفیٰ نہ آیامگر فیصل آباد کے جلسے میں 2 ایم این ایز اور 3 ایم پی ایز سمیت 5 اراکین اسمبلی نےختم نبوت کے نام پراستعفے دے کر مسلم لیگ(ن) کا ووٹ بنک کمزور کرنے کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی۔ یہ دعویٰ بھی کیاگیا کہ پہلی قسط میں 5 استعفے پیش کئے گئے ،اگلے مرحلے میں مزید 20 استعفے آنے والے ہیں، مسلم لیگ (ن) تو کہیں نظر نہیں آئی اس کے باوجود اتوار ایک بھر پور سیاسی دن تھا۔فیصل آباد سے استعفوں کی لہرچلی تو کراچی میں ایم کیو ایم کے دو سابق وفاقی وزرا بابر غوری اور شمیم صدیقی کے استعفے بھی آگئے۔جوشہر کراچی کی سیاست میں خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔ شیخوپورہ کا سیاسی میدان سجا تو خیبر پختونخوا کے دو متحارب حریف عمران خان اور مولانا فضل الرحمن آمنے سامنے تھے،دونوں کا ہدف نوجوان تھے۔ مولانا باور کرارہے تھے کہ ان کی حکمت عملی نے نوجوانوں کا مستقبل محفوظ کیا، اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) اور اس کی حلیف جماعتیں نوجوانوں کی حمایت کے اعتبار سے عمران خان کے دعوے کو غلط ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔آصف زرداری سندھ میں مورچہ جمائے ہوئے تھے جب کہ دیگر اپوزیشن نے اتوار کو خوب سماں باندھا، پنجاب اس کا بڑا مرکز تھا، لاہور میں مولانا طاہر القادری کی ایک نئے دھرنے کی تیاریاں عروج پرہیں بعض حلقے قرار دیتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنی ناپسندیدہ مقبول حکومت کو ناکوں چنے چبوانے کےلئے دھرنوں کا نیا ہتھیار ایجاد کیا ہے جو خاصا آزمودہ ثابت ہوا ہے۔ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان زیرک سیاستدان ہیں جنہوں نے ایک روز پہلے اپنی پارٹی کو کئی مفید مشورے دیئے ہیں کہ بلاوجہ عدلیہ اور فوج کو ٹارگٹ کرنا پارٹی مفاد میں نہیں، یہ وقت جوش کانہیں ہوش سے کام لینے کا ہے ورنہ الیکشن میں نقصان ہوسکتا ہے۔ چوہدری نثار کی رائے خاصا وزن رکھتی ہے کہ دھرنوں کا باب مکمل بند کرنا ہوگا،ورنہ یہاں جتھوں کی حکومت ہوگی، ڈنڈا بردار جھتے جب بھی چاہیں گے ملکی نظام تلپٹ کرکے رکھ دیںگے۔ سابق وزیر داخلہ کی وارننگ فراخدلانہ تجزیے کا تقاضا کرتی ہے تاکہ مستقبل میں دارالحکومت کےمعمولات زندگی کو کسی رکاوٹ اور خلل کے بغیر چلتے رہنا چاہئے۔ ا س حوالے سے اپوزیشن کی بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی تجویز قابل غور ہے کہ وفاقی دارالحکومت کو کسی بھی جتھے، گروپ یا تنظیم کےہاتھوں یر غمالی ہونے سے بچانے کے لئے قانون سازی کی جائے اور ایسے عناصر کےلئے جو محاصرے یا یرغمال بناکر دارالحکومت کی شاہراہیں بلاک کر یں،ان کے لئے سخت سزائیں مقرر کی جائیں۔پانامہ لیکس، فیض آباد دھرنے اور نجفی رپورٹ سے حکمران جماعت کی ساکھ متاثر ہوئی ہے،طاہر القادری نجفی رپورٹ کی بنیاد پر ایک نیا سیاسی اتحاد بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ آصف علی زرداری اورعمران خان کی پارٹیاں قادری احتجاج کے لئے پہلے ہی تعاون کی یقین دہانی کراچکی ہیں، احتجاج کا اعلان کسی وقت بھی متوقع ہے۔ ان کی جانب سے ماڈل ٹائون فائرنگ کیس کی تحقیقات کے لئے پانامہ کی طرز پر جے آئی ٹی بنانے کامطالبہ بھی زور پکڑ رہاہے، یہ مطالبہ پورا ہوتا ہے یا نہیں لیکن اس وقت ملکی سطح حکمران جماعت کے لئے ہر آنے والے دن کا سورج ایک نئی مشکل لے کر طلوع ہوتا ہے، یوں لگتا ہے کہ فیض آباد دھرنے سے حکومتی عمل داری کی کمزوری کا جو سلسلہ شروع ہوا اس سے ریاستی مشینری بھی بتدریج غیر موثر ہورہی ہے، ایسے میں نوشتہ دیوار یہ ہے کہ جمہوریت کی کشتی کو انتخابات کے ذریعے ساحل مراد تک پہنچایا جائے تاکہ امید کےچراغ روشن رہیں اور مملکت کو باوقار بنانے کے حسین خوابوں کا سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے۔ قابل اجمیری نے کیا خوب کہا تھا جہاں امید کی کوئی کرن نظر آئی۔۔ وہیں سے ایک نئی تیرگی ابھر آئی ،جسے چراغِ شب غم میں ہم نے دیکھا تھا۔۔۔ تری نظر میں وہی روشنی نظر آئی، بہت حسین ہیں خوابوں کے سلسلے قابل۔۔۔۔ ستارے ڈوب گئے تو سحر نظر آئی۔
تازہ ترین