• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جہانگیر ترین ! یونیورسٹی لیکچرر سے ایک ارب پتی کاروباری شخصیت

کراچی(نیوزڈیسک) جہانگیر ترین پنجاب یونیورسٹی کے ایک لیکچرر سے لے کر ارب پتی کاروباری شخصیت بنے اور اس حوالے سے کچھ انکشافات انہوں نے اپنی زبان آپ کئے، جہانگیر ترین کاکہناہےکہ والد صاحب کی زمین سے ملحق سرکاری زمین کو محکمہ جنگلات نے فوج کو دے دیا جس نے یہ زمین میڈل لینے والے اپنے افسروں میں بانٹنا شروع کر دی، اورمیں نے یہ زمینیں ان فوجی افسروں سے بہت سستی خریدنی شروع کر دیں چونکہ یہ بنجر صحرائی علاقہ تھا اس لیے لوگ یہ زمین بہت ہی سستی بیچتے رہے، 20سال میں یہ کام کرتا رہا کہ فوجی افسروں سے بنجر زمینیں خریدتا رہا،اس دوران انہوں نے کتنی زمین خریدی اس بارے میں جہانگیر ترین واضح بات نہیں کرتے لیکن بعض اندازوں کے مطابق ان کے پاس جنوبی پنجاب سے سندھ تک 45ہزار ایکڑ زمین ہے،شہباز شریف نے انہیں اپنی زرعی ٹاسک فورس کا سربراہ لگایا، ترین کے ناقدین کہتے ہیں اس دور میں پنجاب میں زمینوں سے زیادہ پیداوار لینے کے لئے غیر ملکی تنظیموں کے تعاون سے بہت سے تجربات ہوئے، ان میں سے بیشتر جہانگیر ترین نے اپنی ہی زمینوں پرکروائے، مشرف دور میں زراعت کے وزیر بنے ، 2011میں سیاسی پریشر گروپ بنایاجسے بعد میں وہ دھوکہ دیکر چھوڑگئے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق جہانگیر ترین نے اپنی زندگی کے ابتدائی 20برس اسی دو کمروں کے مکان میں بسر کیے، جہانگیر ترین کو تعلیم کے لئے لاہور بھجوایا گیا جہاں سے انہوں نے گریجویشن اور امریکا کی نارتھ کیرولینا یونیورسٹی سے 1974میں بزنس ایڈمنسرٹیشن میں ماسٹرز کیا۔بعد ازاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں لیکچرر کے طور پر ملازمت اختیار کر لی لیکن والد کی مخالفت کے باعث وہ بینک کی نوکری کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ایک شام وہ دفتر سے باہر نکلے تو انہیں احساس ہوا کہ وہ خوش نہیں ہیں، ان کا دفتر لاہور کی ایک عمارت کے تہہ خانے میں تھا۔ ’میں صبح اس تہہ خانے میں داخل ہوتا اور شام ڈھلنے کے بعد باہر نکلتا۔ ایک شام دفتر سے نکلتے میں نے سوچا یہ بھی کوئی زندگی ہے؟ اگلی صبح میں اس تہہ خانے میں نہیں گیا۔‘ لاہورسے ملتان پہنچے اور والد کو خبر سنائی کہ وہ کاشتکاری کریں گے،والد جیسے سکتے میں آ گئے۔ ’کیوں پتر، لاہور میں کوئی جھگڑا ہو گیا ہے کیا؟‘ ’چند دن لودھراں میں والد صاحب کی زمینوں پر گزارتے ہی مجھے احساس ہو گیا کہ کاشتکاری میرے ڈی این اے میں ہے، میں نے سیاست کی، کاروبار کیا، دنیا دیکھی یعنی ہر کام کیا لیکن جو خوشی مجھے کاشتکاری کر کے ہوتی ہے وہ دنیا کے کسی کام میں نہیں ہوتی، میں سب کچھ چھوڑ سکتا ہوں کاشتکاری نہیں چھوڑ سکتا۔‘والد کی 400ایکڑ زمین پر انہوں نے کاشتکاری شروع کی اور یہاں سے ان کی کامیابیوں کا نہ ختم ہونے والا سفر شروع ہوتا ہے۔جہانگیر ترین بتاتےہیںکہ’ابھی مجھے لودھراں آئے دو سال ہوئے تھے کہ والد صاحب کی زمین سے ملحق سرکاری زمین کو محکمہ جنگلات نے فوج کو دے دیا جس نے یہ زمین میڈل لینے والے اپنے افسروں میں بانٹنا شروع کر دی، اب جس افسر کو یہ زمین ملتی وہ جب زمین دیکھنے وہاں آتا تو اس کا استقبال ایک بنجر ریگستان کرتا کیونکہ یہاں پانی نہیں تھا، میں اس زمین کے بالکل ساتھ بیٹھا تھا۔ میں نے کیا کیا کہ یہ زمینیں ان فوجی افسروں سے بہت سستی خریدنی شروع کر دیں چونکہ یہ بنجر صحرائی علاقہ تھا اس لیے لوگ یہ زمین بہت ہی سستی بیچتے رہے، 20سال میں یہ کام کرتا رہا کہ فوجی افسروں سے بنجر زمینیں خریدتا رہا۔‘اس دوران انہوں نے کتنی زمین خریدی اس بارے میں جہانگیر ترین واضح بات نہیں کرتے۔ لیکن بعض اندازوں کے مطابق ان کے پاس جنوبی پنجاب سے سندھ تک 45ہزار ایکڑ زمین ہے، اس زمین کو ان کی ملکیت ثابت کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس میں بیشتر زمین ان کے ملازمین اور رشتہ داروں کے نام پر خریدی گئی ہے،فوجیوں کی زمینوں سے فارغ ہونے کے بعد جہانگیر ترین نے مقامی زمین داروں کا رخ کیا اور انہیں ان کی زمین کے بدلے سالانہ اتنی رقم کی پیشکش کی جتنی وہ سال بھر محنت کر کے کماتے تھے، بیشتر لوگوں کو یہ پیشکش بھاگئی اور انہوں نے اپنی زمینیں ٹھیکے پر جہانگیر ترین کے حوالے کر دیں، اس طرح سے حاصل کی گئی زمین کا شمار جہانگیر ترین کے قریبی رشتہ دار بھی آج تک نہیں کر سکے، یہ ساری خرید و فروخت غیر متنازعہ نہیں رہی۔ ان کے بعض رشتہ داروں، علاقے کے زمینداروں اور بعض دیگر الاٹیوں نے ان پر زمینوں پر قبضوں اور دھوکے سے زمینیں کم داموں خریدنے کے الزامات لگائے، ان میں سے بہت سوں پر تصفیے اور فیصلے ہو چکے ہیں اور کچھ مقدمات ابھی تک سول عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ زمینوں سے کمائی گئی رقم جہانگیر ترین نے مختلف صنعتوں اور کاروباروں میں لگائی، شوگر ملیں خریدیں، حصص میں پیسہ لگایا، بنکوں میں حصہ داری کی، الغرض ہر وہ نفع بخش کام کیا جو کوئی بھی سمجھ دار کاروباری کرتا، یوں وہ ملک کے بڑے زمیندار کے ساتھ ساتھ کامیاب کاروباری بھی بن گئے،اس زمینداری کو چار چاند اس وقت لگے جب جہانگیر ترین کو وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اپنی زرعی ٹاسک فورس کا سربراہ لگایا، ان کے ناقدین الزام لگاتے ہیں اس دور میں پنجاب میں زمینوں سے زیادہ پیداوار لینے کے لئے غیر ملکی تنظیموں کے تعاون سے بہت سے تجربات ہوئے، ان میں سے بیشتر جہانگیر ترین کی زمینوں پر ہی کیے گئے، ناقدین اس عمل کو جہانگیر ترین کی زمینوں کی غیر معمولی پیداوار کی اہم وجہ قرار دیتے ہیں۔پرویز مشرف کے فوجی اقتدا نے انہیں نفع بخش موقع دیا، وہ مسلم لیگ ق میں شامل ہوئے اور 2002کے انتخاب میں قومی اسمبلی کے لودھراں سے رکن منتخب ہوئے، انہیں وفاقی وزیر بننے کی پیشکش ہوئی جسے انھوں نے ٹھکرا دیا لیکن جب وزیر اعلیٰ پنجاب ان کے پاس ان کے منہ مانگے محکمے کی پیشکش لے کر آئے تو وہ ’انکار نہ کر سکے‘ اور ایک بار پھر زراعت کے صوبائی محکمے سے وابستہ ہو گئے، اس دوران زمینوں کی خریداری بھی جاری رہی اور سرکاری خرچ پر نت نئے تجربات بھی۔ کچھ عرصے بعد وہ وزیر اعظم شوکت عزیز کےوزیر صنعت و پیداوار بن گئے، ایک بار پھر ناقدین نے شور مچایا کہ اس دوران ملک کے ساتھ ساتھ جہانگیر ترین نے بھی خوب صنعتی ترقی کی، 2008میں وہ اپنے ایک اور رشتہ دار پیر صاحب پگارا کی مدد اور ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن بن گئے۔ 2011میں انہوں نے درجن بھر ’ہم خیال‘ ارکان اسمبلی کو اکٹھا کیا اور ایک مضبوط سیاسی پریشر گروپ کے طور پر سامنے آئے، ابھی یہ گروپ اپنی آئندہ سیاست کے بارے میں غور و فکر کر ہی رہا تھا کہ اچانک خبر آئی کہ جہانگیر ترین عمران خان کی تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ہیں، خود اس گروپ کے ارکان بھی حیران رہ گئے کہ کس طرح ان کی طاقت کو استعمال کر کے جہانگیر ترین نے ایک لمبی چھلانگ لگائی کہ خود یہ گروپ بھی دیکھتا ہی رہ گیا۔پی ٹی آئی میں ان کی آمد اور پھر اہم ترین عہدے تک ترقی بھی آسان نہیں رہی۔ 2015میں پی ٹی آئی میں پارٹی انتخابات کروانے والے پارٹی رہنما جسٹس وجیہہ الدین احمد نے الزام لگایا کہ جہانگیر ترین نے دولت کے بل پر پارٹی انتخابات میں دھاندلی کی کوشش کی ، عمران خان نے جسٹس وجیہہ کی بات سنی ان سنی کر دی جس پر جسٹس صاحب پی ٹی آئی سے علیحدہ ہو گئے۔ آج جہانگیر ترین بہت فخر سے کہتے ہیں کہ عمران خان ان کا مشورہ بہت غور سے سنتے ہیں۔ ’یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ عمران خان اس ملک کا مستقبل اور آخری امید ہیں، اس لحاظ سے اس ملک کی بہت بڑی ذمہ داری مجھ ہر عائد ہوتی ہے۔‘ ناقدین کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین کے مشورے سننا عمران خان کی ایک طرح کی مجبوری بھی ہے کیونکہ وہ کسی بھی دن سب سے زیادہ وقت جہانگیر ترین کے ساتھ گزارتے ہیں۔ جلسوں اور اجلاسوں میں شرکت کے دوران اور ان کیلئے آتے جاتے بھی، چاہے یہ سفر بلٹ پروف گاڑیوں میں ہو جہانگیر ترین کے ملکیتی نجی طیارے میں ہو۔
تازہ ترین