• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گھنائونے جرائم...... سردار پرویز محمود…ناروے

سیرئیل کلرز یعنی سلسلہ وار قتل کی واردات میں ملوث افراد دنیا کے ہر دوسرے معاشرے میں موجود ہوتے ہیں۔ اور ان تک پہنچنا اور ان کو کیفر کردار تک پہنچانا جرائم کی دنیا میں مشکل ترین اور پریشان کن ٹاسک ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کے جرائم کو قابو کرنے کے لیے جو اقدامات کیے جاتے ہیں راقم ان اداروں کے کام کرنے کے چند اصول زیر بحث لانا چاہتا ہے۔ اگرچہ راقم جرائم پر کام کرنے والے کسی ادارے میں ملازمت کا کوئی تجربہ نہیں رکھتا اس لیے یہ تحریر اس ضمن میں سادہ اور عام فہم ہی کہی جاسکتی ہے۔زینب جیسی معصوم بچی کو حوس کا نشانہ بناکر قتل کردینے والا مجرم ایک عام مجرم بالکل نہیں ہوسکتا ۔ ایک نارمل انسان اتنا گھناونہ جرم کر ہی نہیں سکتا۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ بہت سے بالغ لوگ ڈرائونی فلم تک دیکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ بلکہ بعض لوگ تو دیکھ ہی نہیں سکتے۔ چنانچہ ایسا مجرم جو سیریل کلر ہو اور وہ بھی معصوم بچیوں کا ۔ اس طرح کے مجرم کی ذہنی کیفیت نارمل انسان کی ذہنی کیفیت سے بہت زیادہ پیچیدہ ہونی چاہیے ۔مینٹل ڈس آرڈر یا ذہنی خرابی کی قسمیں ڈاکٹرز کے علم میں ہوتی ہیں۔ اور ماہر نفسیات اس سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے کام کرتے ہیں۔ یہ ماہر نفسیات یا ڈاکٹر لوگ سیریل کلرز کی واردات کا پیٹرن سٹڈی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کتنی واردات ہوئیں۔ ان میں کیا چیز مشترک ہے۔ کتنے وقفے سے ہوئیں۔ واردات کی نوعیت کیا میسج دے رہی ہے۔ یہ ساری تفصیلات اور ان سے ملی جلی تفصیلات متعلقہ مجرم کے مینٹل ڈس آرڈر کو پڑھنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔ یوں کہیے کے یہ ساری واردات ایک طرح کا ڈیٹا ہے جسے سمولیٹ کرکے یعنی ان کا مختلف تفصیلات کے ساتھ گراف مرتب کرکے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ متعلقہ مجرم کتنے عرصے کے بعد واردات کرتا رہا ہے۔ اور اگلی واردات کب کرنے والا ہے؟ یعنی قانون نافذ کرنیوالے ادارے مجرم کے مینٹل ڈس آرڈر کو جب تک مکمل طور پر سمجھ نہ جائیں تب تک مجرم کا پکڑا جانا محض اتفاق ہی ہوسکتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا مجرم پہلے تو بہت ذہین ہوتا ہے اور اپنے فٹ پرنٹس نہیں چھوڑتا۔ ایسا مجرم معاشرے میں کیموفلیج ہوتا ہے۔ یعنی معاشرے کا ایک باعزت اور معزز یا شریف شہری نظر آتا ہے۔جس پر اپنا پرایا کوئی بھی شک نہیں کرتا۔ ایسے مجرم کو پکڑنا جرائم کی دنیا میں سب سے مشکل کام ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص پکڑا جائے۔ کسی دباو میں وہ اقرار جرم کرلے اور اسے سزا بھی ہوجاے اور اصل میں وہ بے گناہ ہو اور اصل مجرم معاشرے میں آزاد پھر رہا ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مجرم کو پکڑے جانے کی جو کاوش ہے وہ کن بنیادوں پر ہے؟ جہاں بھی جمہوریت ہے وہاں پبلک پریشر تو ہوتا ہے کہ مجرم کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کی کارکردگی پبلک پریشر پر منحصر ہے تو متعلقہ ادارے اس پریشر کو ہینڈل کرنے کا زیادہ سوچتے ہیں بجائے مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے پر اپنی توانائیاں صرف کریں۔ یوں مقدمے کا سیاست کی نظر ہوجانے کا زیادہ احتمال رہتا ہے۔ یہ جمہوریت کی بڑی خامی ہے۔

تازہ ترین