• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قانون میں سرعام پھانسی کی اجازت،سپریم کورٹ نے منع کررکھا ہے،چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل

Todays Print

اسلام آباد(رپورٹ:انصار عباسی )اسلامی نظریاتی کونسل نے جمعرات کو اپنے اجلاس کے اختتام میں یہ بیان جاری کیا کہ حکومت کو کسی مجرم کو سر عام پھانسی دینا ہے تو ملک میں رائج قوانین کے تحت وہ ایسا کر سکتی ہے اور اس کیئے کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں۔ تاہم، کونسل نے اس بات کی نشاندہی کی کہ سپریم کورٹ نے سر عام پھانسی پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے میڈیا رپورٹس کی تردید کی کہ کونسل نے سر عام پھانسی کی مخالفت کی ہے، انہوں نے دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کونسل کا کہنا ہے کہ مجرم کو سر عام پھانسی دی جا سکتی ہے اور کسی قانون میں ترمیم کی ضرورت نہیں۔ ڈاکٹر ایاز نے کہا کہ سینیٹ کمیٹی نے کونسل سے رابطہ کرکے سادہ سوال پوچھا تھا کہ کسی مجرم کو سر عام پھانسی دینے کیلئے موجودہ قوانین میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے یا نہیں۔ کونسل کے چیئرمین نے مزید کہا کہ کونسل نے بھی اسی سوال پر غور کیا تھا اور یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ سر عام پھانسی دینے کیلئے کسی قانون میں تبدیلی کی ضرورت نہیں۔ میڈیا کے ذریعے سزائے موت کی تشہیر کے حوالے سے انہوں نے واضح کیا کہ اس کا مطلب کوئی نیا آئٹم نشر کرنا نہیں بلکہ ٹی وی اسکرینوں پر پھانسی کی سزا نشر کرنا ہے تاکہ معاشرے میں جرائم کیخلاف مزاحمت پیدا کی جا سکے۔ دی نیوز کے پاس دستیاب دستاویزات کے مطابق، اسلامی نظریاتی کونسل نے پرزن رولز (جیل قواعد) 1978ء کے رول نمبر 364؍ کا حوالہ دیا جس میں لکھا ہے کہ ’’تماشائیوں کو اجازت دی جا سکتی ہے۔ معزز مرد حضرات جن کی زیادہ سے زیادہ تعداد 12؍ ہو کو سپرنٹنڈنٹ کی اجازت سے آنے کی اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ آئیں اور جیل کے اندر سزائے موت دیکھ سکیں، یا پھر انہیں جیل کے باہر پھانسی گھاٹ کے انکلوژر تک آنے کی اجازت دی جا سکتی ہے، بشرطیکہ سپرنٹنڈنٹ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے یکسر داخلے کی اجازت ہی نہ دے یا کسی مخصوص شخص کو نہ آنے دے۔ تماشائیوں کو مخصوص فاصلے تک محدود رکھا جائے اور محافظوں کی مناسب تعداد کو بھی وہاں موجود رکھا جائے، جو کسی بھی ناخوشگوار صورتحال یا مجرم کو چھڑانے کی کوشش کو ناکام بنا سکیں۔ مجرم کا والی اگر چاہے تو وہ سزائے موت کا منظر دیکھ سکت ہے۔‘‘ اسلامی نظریاتی کونسل نے اسپیشل کورٹ فار اسپیڈی ٹرائل (تیز رفتار ٹرائل کیلئے خصوصی عدالت) 1992ء کے سیکشن 10؍ کا بھی حوالہ دیا جس میں لکھا ہے کہ: موت کی سزا دینے کا مقام: حکومت چاہے تو اس ایکٹ کےتحت سنائی جانے والی سزائے موت کے مقام کا تعین کر سکتی ہےجس کا مقصد ممکنہ طور پر جرائم کیخلاف مزاحمتی عنصر پیدا کرنا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین نے واضح کیا کہ کونسل کے اجلاس کے دوران دو ارکان، جو سابق جج صاحبان ہیں، نے اس بات کی نشاندہی کی کہ سپریم کورٹ نے سر عام پھانسی پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ لیکن اس کے باوجود سیشن کورٹ مجرم کی سر عام پھانسی کا حکم دے سکتی ہے لیکن سپریم کورٹ اس پر امتناع جاری کرے گی۔ انہوں نے بتایا کہ کونسل کے ایک رکن نے دورانِ اجلاس بتایا کہ سیشن جج سر عام پھانسی کا حکم دیا تھا لیکن متعلقہ ہائی کورٹ نے اس جج کیخلاف انضباطی کارروائی کا آغاز کر دیا۔ حال ہی میں سینیٹ سیکریٹریٹ نے کونسل کو ضابطہ فوجداری میں ترمیم کی تجویز پیش کی تھی کہ سر عام پھانسی کی اجازت دی جائے۔ سینیٹ کمیٹی برائے امور داخلہ نے سینیٹر رحمان ملک کی زیر قیادت تجویز دی تھی کہ قانون میں ترمیم کرکے قصور واقعے جیسے جرائم پیشہ افراد کو سر عام پھانسی دی جائے۔ موجودہ قوانین کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کے موقف کے برعکس، چیف جسٹس پاکستان نے زینب قتل کیس میں لیے گئے از خود نوٹس کیس میں مقتولہ کے والد کو بتایا کہ وہ بھی مجرم کی سر عام پھانسی چاہتے ہیں لیکن قانون کے مطابق اس کی اجازت نہیں۔ تاہم، اسلامی نظریاتی کونسل نہیں سمجھتی کہ مجرم کو سر عام پھانسی دینے کے حوالے سے قانون میں کسی طرح کی رکاوٹ موجود ہے لیکن سپریم کورٹ نے اس پر پابندی عائد ضرور کر رکھی ہے۔

تازہ ترین