• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پیپلزپارٹی نے پنجاب کیسے کھو دیا؟

 2013ء میں جب پیپلزپارٹی پنجاب میں عام انتخابات ہاری گئی تھی۔ سابق صدر اور پارٹی سربراہ آصف علی زرداری نے شکست کی دو وجوہ بتائیں۔ ایک ریٹرننگ افسران کا عنصر اور دُوسرا طا لبا ن کا خطرہ۔ جہاں تک انتخابی شکست کا تعلق ہے، یہ بات دُرست ہو سکتی ہے۔ لیکن انہوں نے تو اپنی پارٹی ہی کھو دی۔ مسلم لیگ (ن) کے پانچ سالہ دور حکومت میں پیپلزپارٹی کے اُمیدوار ضمنی انتخابات میں اپنی ضمانتیں تک گنواتے رہے۔ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری دُرست کہتے ہیں کہ موروثی سیاست پیپلزپارٹی پر مسلط کی گئی۔ لیکن جو پارٹی میری والدہ بے نظیر کو نانا ذوالفقار علی بھٹو سے ملی اور میں نے جو پارٹی اپنے والد آصف زرداری سے پائی، ان میں نظریہ اور عزم دونوں کا فرق ہے، لہٰذا انہیں اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر چیلنجوں کا سامنا ہے۔ پیپلزپارٹی آج پنجاب میں تیسرے نمبر کی جماعت بھی نہیں رہی۔ یقینی طور پر وقت بلاول کے ساتھ ہے، وہ بہت کچھ سیکھ سکتےہیں۔ انہیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آج کے سیاسی محرکات ماضی سے مختلف ہیں، لیکن مجھے یقین نہیں موجودہ حالات میں وہ پیپلزپارٹی کو کوئی نئی شکل دے سکیں۔ خصوصاً جب ان کے والد آصف علی زرداری ہی پارٹی اُمور چلا رہے ہوں اور باگ ڈور ان ہی کے ہاتھوں میں ہو۔ آصف زرداری نے نوازشریف کو اقتدار منتقل کر کے پرامن منتقلی اقتدار کی اچھی مثال قائم کی۔ انہوں نے ایک غیر سیاسی بیان دیا تھا کہ ’’میاں صاحب آپ کے پاس حکومت کرنے کے لئے چار سال ہیں اور میں آخری سال میں سیاست کروں گا۔‘‘ پارٹیا ں بعد از انتخاب سیاست ترک نہیں کرتیں بلکہ اپوزیشن کی حیثیت سے حکومت کو کڑا وقت دیتی ہیں۔ اس طرح فرینڈلی اپوزیشن کا غلط تاثر بنا اور پیغام گیا۔ جس سے پنجاب میں پارٹی کارکنان اور رہنما مایوس اور دل شکستہ ہوئے۔ پیپلزپارٹی کے بعض رہنمائوں کے خیال میں بے نظیر کے قتل پر آصف زرداری نے 40 دن سیاسی سرگرمیاں معطل کر کے پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچایا۔ پیپلزپارٹی راولپنڈی کی نشست تک جیت نہ سکی۔ جہاں بے نظیر کا قتل ہوا۔ یہ المیہ ہے کہ 50 سال قبل 30 نومبر 1967ء کو لاہور میں جہاں پیپلزپارٹی کی بنیاد پڑی، اب پنجاب میں پیپلزپارٹی کو تمام نشستوں سے انتخابات لڑنا مشکل ہو رہا ہے۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کے مسلسل زوال کی پشت پر کیا کہانی ہے؟ جس نے ملک معراج خالد، ڈاکٹر مبشر حسن، جے ایم رحیم، شیخ رفیق احمد، شیخ رشید احمد، محمود علی قصوری، غلام مصطفیٰ کھر، جہانگیر بدر اور ان جیسے ہزاروں جاں فروش پیدا کئے۔ 1970ء کی دہائی میں سندھ نہیں پنجاب پیپلزپارٹی کا گڑھ رہا۔ لیکن بھٹو کے قتل، بے نظیر اور نصرت بھٹو کی جلاوطنی کے بعد 1983ء کی ایم آر ڈی تحریک میں پارٹی کی پنجاب قیادت کوئی اچھا تاثر نہیں دے سکی۔ یہ تحریک سندھ تک محدود رہی۔ اگر پیپلزپارٹی کے زوال کا منصفانہ جائزہ لیا جائے۔ ایک عنصر جس نے بری طرح نقصان پہنچایا وہ مفاہمت کی سیاست تھی۔ جس کے نتیجے میں سیاسی نظریہ گم ہوا اور پارٹی نظریاتی رہنمائوں سے محروم ہوتی چلی گئی اور اب تو کارکن بھی ساتھ چھوڑتے جا رہے ہیں۔ 2006ء میں میثاق جمہوریت شاید پیش رفت کا واحد راستہ تھا۔ لیکن بے نظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف سے مفاہمت کر کے بڑی سیاسی غلطی کی، جب انہوں نے میثاق جمہوریت کی خلاف ورزی میں آمر کے ساتھ این آر او طے کر کے وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ وطن واپس آئیں تو پھر قتل کر دی گئیں۔ آصف علی زرداری کا سیاست میں اپنا انداز ہے۔ لیکن پارٹی کو شدید نقصان اُٹھانا پڑا جب انہوں نے معزول ججوں کی بحالی میں تاخیر سے کام لیا۔ جس سے پنجاب میں پیپلزپارٹی شدید متاثر ہوئی۔ اس طرح نوازشریف کو وکلاء تحریک رہنما کی حیثیت سے اپنی پوزیشن بحال کرنے کا موقع مل گیا۔ 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کر کے پیپلزپارٹی نے دیگر جماعتوں کے لئے گنجائش چھوڑ ی۔ بے نظیر نے خود اقرار کیا تھا کہ انتخابات کا بائیکاٹ بڑی غلطی تھی۔ پاکستان میں پارٹی قیادت نے انہیں گمراہ کیا۔ 10 اپریل1986ء کو جب بے نظیر وطن واپس آئی تو لاہور میں ان کا فقیدالمثال استقبال ہوا۔ پیپلزپارٹی پنجاب میں دوبارہ قدم جما سکتی تھی۔ لیکن مخصوص عناصر نے پنجاب کو سیاسی گڑھ نہ بنانے کا بے نظیر کو غلط مشورہ دیا۔

تازہ ترین