• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

نیشنل اسٹیڈیم سنہری یادوں کا خزانہ لئے ہوئے

نیشنل اسٹیڈیم سنہری یادوں کا خزانہ لئے ہوئے

نیشنل اسٹیڈیم کراچی انٹرنیشنل کرکٹ سینٹرز کا نمایاں نام، پاکستان کا سب سے بڑا اسٹیڈیم ، عالمی کرکٹ کے بڑے مقابلوں کا باوقار میزبان، ورلڈ کپ، ایشیا کپ سمیت متعدد اہم معرکوں کی آماجگاہ، ایک مرتبہ پھر بڑی شان سے کھلاڑیوں اور تماشائیوں کو اپنے اندر سمونے کے لئے تیار ہے ۔ 

ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی مسلسل فتوحات کا ذکر ہو، نامور بولرز کی بے مثال کارکردگی کا رجسٹر ہو اور یا پھر چوکوں، چھکوں کی گھن گرج کی داستان ہو، نیشنل ا سٹیڈیم کراچی ہر وقت ، ہر ٹیم،ہر کھلاڑی اور شائقین کےذہنوں میں ہمیشہ کے لئے نقش رہاہے۔ ویوین رچرڈز کی 1987ء میں 181رنز کی شاہکار اننگز آج بھی یادوں میں تازہ ہے، یونس خان کی ٹرپل سنچری، محمد یوسف کی 2006 کےسال بھر کی ریکارڈ کارکردگی کے اختتامی لمحات کا نیشنل ا سٹیڈیم گواہ ہے۔ 

دنیائے کرکٹ میں آج لیجنڈری کا لقب پانے والے مشہور زمانہ کرکٹرز سچن ٹنڈولکر اور وقار یونس کو اولین ٹیسٹ میچ کے لئے بھی اسی سٹیڈیم نے اپنی وسعتوں میں ایسی جگہ دی کہ دنیائے کرکٹ ان عظیم کھلاڑیوں کے ذکر کے بنا ادھوری ہے ۔

پاکستان سپر لیگ تھری کا مسحور کن لمحہ آن پہنچا ،پی ایس ایل ایکسپریس بڑی دھوم سے دبئی ،شارجہ اور لاہور سے ہوتی ہوئی پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی پہنچ چکی ہے، 25مارچ کا دن پاکستان کرکٹ کے لئے کتنی انمول یادیں اور حسین سپنے لئے آیا ہے ۔

کیا ہی خوش قسمت تاریخ ہے آج سے 26سال قبل اسی تاریخ یعنی 25مارچ 1992ء کو پاکستان دنیائے کرکٹ کا عالمی چیمپئن بنا تھا۔ نامساعد حالات نا قابل بیان مشکلات اور اعصاب شکن محلات کو مسمار کرنے والی قومی کرکٹ ٹیم نے کرکٹ کا پانچواں عالمی کپ جیت کر دنیائے کرکٹ پر اپنی شہنشاہیت ثبت کی تھی ۔معاملہ آج بھی ویسا ہے 2009ء کے بعد پاکستان کرکٹ پر جتنا کڑا وقت آیا، تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

دہشت گردی کے واقعات ،خاص کر سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے مستقل بند ہو گئے، با صلاحیت کھلاڑی ہوم گرائونڈ پر کھیلنے سے محروم رہے، ٹیلنٹ کا بے دریغ ضیاع ہوا، قومی ٹیم بڑا اسٹیٹس رکھنے کے باوجود اجنبیوں کی طرح ملک سے باہر کھیلتی رہی، کرکٹ کا کھیل بری طرح متاثر ہی نہیں تباہ ہوا، گرائونڈز کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی گئی، کارکردگی کاگراف زمین بوس ہو گیا اور پاکستانی شائقین اپنی ٹیم کے ہوتے ہوئے بھی لاچار ی کی مجسم تصویر بنے ٹی وی سکرینوں تک محدود ہو گئے ۔

وقت ایک سا نہیں رہتا، کبھی کی صبح بڑی کبھی کی شام ۔پاکستان سپر لیگ کا آغاز انہی مسائل کی وجہ سے بڑی مشکلات اور نا قابل تلافی نقصان کے بعد 2016ء سے ہوا، گزشتہ سال اس کا فائنل قذافی اسٹیڈیم میں کامیابی سے ہواتو پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے امکانات روشن ہو گئے اس کے بعد ورلڈ الیون اور سری لنکا نے پاکستان میں انٹرنیشنل میچ کھیل کر منزل کو قریب تر کر دیا۔

پی ایس ایل تھری کے فائنل کے لئے نیشنل ا سٹیڈیم کراچی کا اعلان ہوا تو بہت سے لوگوں کو یقین نہ آیا مگر پی سی بی چیئرمین نجم سیٹھی، تمام ملکی سکیورٹی اداروں اور حکومت سندھ کی دن رات کی محنت کے بعد یہ دن آن پہنچاہے۔دشمن قوتوں کی مذموم کاوشیں جاری ہیں،پاکستانیوں کا جذبہ بھی بڑھ رہا ہے۔ 1992ء کی طرح آج 25مارچ 2018ء کو پاکستان کرکٹ کا نیا جنم ہو رہاہے پی ایس ایل نے ایک شہر سے دوسرے شہر ہی نہیں بلکہ ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں کرکٹ رونقیں بحال کر دی ہیں۔

پاکستان دہشت گردی ،خوف تاریکی اور تنہائی سے باہر آ رہاہے یہ بھی 26سال قبل کی فتح سے کم فتح نہیں ،یہ اٹھان بھی عالمی چیمپئن کے ٹائٹل سے کم نہیں بلاشبہ 25مارچ کی تاریخ پاکستان کر کٹ کی تاریخ میںہمیشہ روشن رہے گا۔

نیشنل اسٹیڈیم کراچی کی کیا شان ہے ،کمال تاریخ ہے اور بلندیوں کی قابل فخر معراج ہے۔ 1955ء سے انٹرنیشنل کرکٹ کو سمونے والا یہ ا سٹیڈیم اپنی خوبصورتی ، ریکارڈز اور انمٹ یادوں کا بڑا خزانہ لئے ہوئے ہے۔ 

63سالہ کرکٹ تاریخ رکھنے والا ا سٹیڈیم آج ایک ڈومیسٹک لیگ کے فائنل کے موقع پر دلہنوں کی طرح سجایا گیا ہے، پی سی بی نے کثیر لاگت سے اس میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں 2کروڑ کے قریب کی آبادی والے شہر کے پاکستان کے سب سے بڑے کرکٹ اسٹیڈیم میں 35ہزار کے قریب تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش موجود ہے۔ 

فلڈ لائٹس سے آراستہ گرائونڈ میں پویلین اینڈ اور یونیورسٹی اینڈ کے نام سے ایک رخ سے دوسرے رخ کی پہچان ہے۔ اسے1955 میں کراچی کے پانچویں اور پاکستان کے 11ویں فرسٹ کلاس سینٹر کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ پی سی بی کے منصوبوں میں ا سٹیڈیم کو وسیع تر کرنے کا پروگرام بھی شامل ہے کیا ہی منظر ہو گا جب کرکٹ کے اس قلعے میں 90ہزار سے زائد تماشائی انٹرنیشنل میچ دیکھے کے لئے موجود ہوں گے ۔

نیشنل اسٹیڈیم کراچی سے پاکستان کرکٹ کی خوشگوار اور حسین یادیں وابستہ ہیں اور یہی نہیں بلکہ کئی انٹرنیشنل کرکٹرزکی کارکردگی آج بھی اس گرائونڈ کے مرہون منت سنہرے حروف سے درج ہے ۔ فروری 1955ء کے آخر میں پاکستان نے روایتی حریف بھارت کے خلاف یہاں پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا تھا جبکہ آخری ٹیسٹ میچ بھی فروری کے آخری عشرے میں سری لنکا کے خلاف کھیلا گیا اور یہ تکلیف دہ سال 2009ء کا تھا۔ 

اتفاق نے دونوں ٹیسٹ میچ ڈرا رہے اس سال یعنی 2009ء میں سری لنکا کے ہی خلاف آخری ون ڈے میچ اس گرائونڈ کا اب تک کا آخری 50اوورز کا انٹر نیشنل کرکٹ میچ ثابت ہوا ۔پاکستان کرکٹ کی خوشگوار یادوں میں کھونے کے لئے کیا اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ قومی ٹیم 1955ء سے لے کر 2000ء تک 45برسوں میں یہاں کوئی ٹیسٹ میچ نہیں ہاری۔ 

گویا 34میچوں میں سے 17میں فتح تھی اور 17ڈرا رہے، 2000ء میں انگلش ٹیم اور 2007-08ء میں جنوبی افریقا ٹیم کراچی میں ٹیسٹ میچ جیتنے میں کامیاب ہو سکی اس طرح مجموعی طور پر پاکستان یہاں41ٹیسٹ میچوں میں سے 21جیتا ،صرف 2ہارا جبکہ18میچ ڈرا رہے۔ 

محدود اوورز کی کرکٹ کے حوالہ سے بھی بڑی یادیں رہی ہیں، 1987کے عالمی کپ کے دوران ویسٹ انڈیز کے لیجنڈری بلے باز سرویوین رچرڈز نے سری لنکا کے خلاف 181رنز کی اس وقت کی بڑی اننگز بھی یہاں کھیلی۔ 2006ء میں محمد یوسف نے سال کی ریکارڈ 9ویں سنچری اسی اسٹیڈیم میں اسکور کر کے کلینڈر ایئر میں ویوین رچرڈز کا ریکارڈ توڑ ا جو اب بھی انکے نام ہے۔ 

نیشنل ا سٹیڈیم کے تاریخ کے پہلے ایک روزہ کرکٹ میچ کو کون بھولا ہو گا، 21نومبر 1980ء کو ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کے گورڈن گرینج نے عمران خان کی آخری گیند پر بائونڈری لگا کر پاکستان سے فتح چھین لی تھی۔ ہر ٹیم پر کسی نہ کسی وقت کہیں نہ کہیں مشکل وقت بھی آتا ہے، 1996ء سے صدی کے آخر تک اس اسٹیڈیم میں فتح پاکستان سے روٹھی رہی لیکن شکستیں بھی کوئی زیادہ غالب نہیں تھیں ۔

1987ء اور 1996ء کے عالمی کپ کے دوران 6میچ اس ا سٹیڈیم میں ہوئے جن میں کوارٹر فائنل بھی شامل تھا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے پی ایس ایل تھری کے فائنل کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرتے ہوئے نیشنل اسٹیڈیم کراچی کی ڈیکوریشن سمیت متعدد شعبوں پر کام کیا ہے۔ میڈیا گیلری، وی آئی پی باکسز، کمنٹری بکس اور تماشائیوں کے بیٹھنے کے لئے سیٹوں کا کام قابل دکر ہے ،پبلک ٹوائلٹس پر بھی بھر پور محنت کی گئی ہے ،گنجائش بڑھانے کے لئے کام پی ایس ایل فائنل

کے بعد بھی جاری رہے گا ،بلا شبہ پی ایس ایل تھری دنیا کی دوسری بہترین ٹی 20لیگ کا درجہ اختیار کر چکی ہے اسی طرح پاکستان کرکٹ کے سونے میدانوں کو آباد کرنے میں پی ایس ایل بنیادی نکتہ ہے۔ قذافی اسٹیڈیم لاہور کی طرح نیشنل اسٹیڈیم کراچی کی رونقوں کی بحالی بھی اس کی مرہون منت ہے اور کیوں نہ ہو کر اسی پی ایس ایل فائنل کے فوری بعد ویسٹ انڈیز کی قومی کرکٹ ٹیم 3ٹی 20میچوں کے لئے یکم اپریل سے کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں جلوہ گر ہو گی ۔

نیشنل اسٹیڈیم میں 1980ء میں محدود اوورز کی کرکٹ کا آغاز بھی ویسٹ انڈیز نے کیا تھا اور اب کھوئی رونقوں اور تماشائیوں کےچہروں سے دور مسکراہٹوں کے واپس لانے والی ٹیم بھی ویسٹ انڈیز کی ہو گی ۔پی ایس ایل تھری کا فائنل نیشنل ا سٹیڈیم کراچی کی چابی بن گیا ہے فائنل کے بعد روشن اور منور ا سٹیڈیم میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹی 20سیریز پاکستان کرکٹ کے دوسرے بڑے دور کا گریٹ آغاز ہو گی۔

پچھلے فائنلز کا مختصر جائزہ            

2016ء کے پہلے پی ایس ایل کا ٹائٹل اسلام آباد یونائیٹڈ اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے درمیان دبئی میں ہوا تھا، پورے ایونٹ میں ٹاپ کرنے والی کوئٹہ ٹیم فائنل میں فیورٹ ہونے کے باوجود ہار گئی تھی، مصباح الحق کی قیادت میں اسلام آباد پہلا پی ایس ایل چیمپیٔن بنا تھا، 23 فروری کو دبئی میں کوئٹہ نے وننگ اسکور 174 بنائے تھے مگر اسلام آباد نے 19 ویں اوور میں 4 وکٹ پر اسکور پورا کر لیا تھا، دوسرے پی ایس ایل کا فائنل 5 مارچ کو2017 کو لاہور میں پشاور اور کوئٹہ کے مابین ہوا، پشاور کی ٹیم 6 وکٹوں پر صرف 148 رنز کر سکی، بدقسمت کوئٹہ کی ٹیم 90 پر ہی فارغ ہو کر دوسرا فائنل ہار گئی۔ پاکستان سپر لیگ کا تیسرا فائنل 25 مارچ کو کراچی میں ہے۔ 

      نیشنل اسٹیڈیم میں کھیلا گیا واحد ٹی ٹوئنٹی میچ ایک نظر میں

 نیشنل اسٹیڈیم میں واحد انٹر نیشنل ٹی ٹوئنٹی می پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان20اپریل2008میں کھیلاگیا جس میں پاکستان نے پانچ وکٹ پر203 رنز بنائے جوا ب میں حریف ٹیم101رنز بناسکی پاکستان کی جانب سے مصباح الحق نےسب سے زیادہ 101رنز بنائے جبکہ منصور امجد نے تین رنز دے کر تین وکٹ لی۔

تازہ ترین
تازہ ترین