• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم کیا اور ہماری اوقات کیا! زمین پر یوں دندناتے پھرتے ہیں جیسے اسے پھاڑ ہی ڈالیں گے، گردن یوں اکڑا کے چلتے ہیں جیسے باقی ماندہ انسانوں کی زندگی کا فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہو اور اپنی ذہانت پر یوں اتراتے ہیں جیسے پیدائش سے پہلے اپنا دماغ آرڈر پر ہم نے خود بنوایا ہو! حقیقت کیا ہے، کوئی نہیں جانتا مگر ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ زمین پر دندنا کر پھرنے والے اٹھارویں صدی کے کسی انگریز کے گھر پیدا ہوتے اور دس برس کی عمر میں کسی ایسی فیکٹری میں ’’ملازمت‘‘ کرنے پر مجبور ہو جاتے جہاں بید سے مار مار کر کام کروایا جاتا تھا۔ یوں بھی ہو سکتا تھا کہ گردن اکڑا کر پھرنے والے تین ہزار برس قبل کسی بادشاہ کے دربار میں ہوتے اور ان کی گردنوں میں غلامی کا طوق ہوتا۔ اور یہ بھی ہو سکتا تھا کہ اپنی ذہانت پر ناز کرنے والے نازی جرمنی میں کسی یہودی کے گھر پیدا ہوتے اور کم عمری میں ہی ان کا خاتمہ کسی کنسنٹریشن کیمپ میں ہو جاتا اور آج ان کے جوتے واشنگٹن کے عجائب گھر میں رکھے ہوتے۔
یہ دنیا بے حد عجیب ہے، یہاں فیکٹریوں کا مالک کامیاب انسان سمجھا جاتا ہے، اس کا احسان ہے کہ وہ ملک میں نوکریاں پیدا کرتا ہے، ملکی ترقی میں حصہ ڈالنے کا بھی دعویدار ہے، اسی لئے حکمرانوں کا بھی منظور نظر ہے، مگر اسی فیکٹری میں جانوروں کی طرح کام کرنے والا مزدور زندگی میں ایک ناکام انسان ہے، صرف اس لئے کہ وہ اس ماں کے گھر پیدا ہو گیا جو ازل سے غریب تھی اور اُس کا بیٹا ابد تک غریب رہے گا۔ جانوروں کی طرح کام کرنے والی مثال کچھ مناسب نہیں، کیونکہ جانور تو جنگل میں رہتے ہیں، وہاں ان کے لئے قدرت نے ہوا، پانی، خوراک کا انتظام کر رکھا ہے، انہیں کسی ایسے سیٹھ کی ملازمت نہیں کرنی پڑتی جس کی فیکٹری میں دس بارہ ہزار ماہوار کے عوض پچھتر ڈگری درجہ حرارت میں مسلسل کھڑے رہ کر کام کرنا پڑے۔ جانوروں کو ان ملٹی نیشنل فوڈ چینز میں بھی کام نہیں کرنا پڑتا جہاں تیس روپے فی گھنٹہ کے حساب سے کام لیا جاتا ہے اور انہیں کسی قسم کے حقوق بھی حاصل نہیں ہوتے کیونکہ یہ کمپنیاں ایک لیبر کنٹریکٹر کے ذریعے ان ’’غلاموں‘‘ سے کام لیتی ہیں۔ جانوروں کو ایسے سیٹھوں کی ملازمت بھی نہیں کرنی پڑتی جو اپنے منافع میں اضافے کے لالچ میں اپنی فیکٹریوں میں مناسب حفاظتی بندوبست نہیں کرتے جس کے نتیجے میں ان کے یہ غلام اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، سیٹھ ان کی بیوہ کو پچاس ہزار کا چیک لکھ کر دیتا ہے اور اگلے روز ایک نیا غلام فیکٹری میں کام پر آجاتا ہے۔
اٹھارویں صدی کا یورپ اس سے بھی بدتر تھا۔ صنعتی انقلاب کے اس دور میں ملازمین سے بارہ سے چودہ گھنٹے کام لیا جاتا اور اکثر کھانے کے اوقات میں ان سے کہا جاتا کہ اب وہ مشینوں کی صفائی کریں۔ اجرت کا یہ حال تھا کہ مردوں کو پچھتّر پینیز فی ہفتہ جبکہ عورتوں کو پینتیس اور بچوں کو پندرہ پینیز ہفتہ دیا جاتا، اسی لئے سیٹھ صاحبان مردوں کو بالغ ہونے پر نوکری سے نکال دیتے، یہی وجہ تھی کہ لوگ اپنے بیوی بچوں سے کام کروانے پر مجبور تھے۔ کام میں غفلت پر بچوں کی گردن میں وزن لٹکا کر انہیں سزا دی جاتی، انہیں پانی میں ڈبکیاں دلا کر جاگنے پر مجبور کیا جاتا اور ان کے کانوں کو کیل سے میز میں ٹھونک دیا جاتا۔ کام میں دیر سے آنے پر بھاری جرمانے عائد کئے جاتے اور اکثر ایسا بھی ہوتا کہ سپر وائزر فیکٹری کا گھڑیال پیچھے کر دیتا تاکہ زیادہ کام لیا جا سکے۔ شدید سردی کے موسم اور حفاظتی بندوبست کے نہ ہونے کی وجہ سے ان فیکٹریوں میں بے شمار اموات ہوتیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہ ہوتا۔ یہ سب کچھ آج سے دو سو سال پہلے کے یورپ میں ہوتا تھا اور اسے ٹوٹے پھوٹے قانون کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اس زمانے میں اگر بچوں کے کام کرنے کی تصاویر دیکھی جائیں تو دل لرز جاتا ہے۔ مگر پھر آہستہ آہستہ حالات تبدیل ہوئے، مزدور یونینز وجود میں آئیں، انسانی حقوق کا غلغلہ بلند ہوا، غلامی کا خاتمہ ہوا، لیبر قوانین بنے، اصلاحات نافذ ہوئیں اور آج یورپ میں ان انسانیت سوز مظالم کا تصور بھی نہیں۔
ہمارے ہاں وہ حالات تو نہیں جو اٹھارویں صدی میں یورپ میں تھے مگر آج بھی سیٹھ کمپنیاں اپنے ملازمین سے غلاموں جیسا سلوک کرتی ہیں ، جو ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے ملکوں میں لیبر لاز کی خلاف ورزی کا سوچ بھی نہیں سکتیں وہ ہمارے ملک میں تیس روپے فی گھنٹہ کے حساب سے بیگار لیتی ہیں اور کوئی انسانی حقوق کے ان ٹھیکیداروں کو پوچھنے والا نہیں۔ سیٹھ صاحب رمضان المبارک میں اپنے ملازموں میں صدقہ و خیرات تقسیم کرتے ہیں، ان کی نیک پروین بیگم اپنے زکوٰۃکے پیسوں میں سے ہر ملازم کو ایک ایک سوٹ بنوا کے دیتی ہے، کسی ملازم کی بیٹی کی شادی ہو تو اس کی بھی چند ہزار روپوں سے مدد کی جاتی ہے، کسی کا بازو مشین میں آکر کٹ جائے تو اس کا ’’ازالہ‘‘ بھی کیا جاتا ہے، فیکٹری کی بدترین آلودگی میں کام کرکے کسی کے پھیپھڑے ختم ہو جائیں تو سیٹھ صاحب اسے بھی کچھ نہ کچھ دے کر ہی فارغ کرتے ہیں، اسی لیے لوگ کہتے ہیں کہ سیٹھ صاحب زبان کے تو کڑوے ہیں مگر دل کے اچھے ہیں اور رمضان کے مہینے میں تو سیٹھ صاحب کی زبان بھی میٹھی ہو جاتی ہے۔
مگر سیٹھ صاحب اس وقت یکدم غصے میں آ جاتے ہیں جب ان کا کوئی سر چڑھا دوست کہے کہ اپنے ملازمین پر رمضان کے مہینے میں یہ ’’احسانات‘‘ کرنے کی بجائے قانون کے مطابق ان کی اجرت کیوں نہیں مقرر کرتے، انہیں بھٹی کے سامنے کام کرنے پر کیوں مجبور کرتے ہو، جو پیسے تم انہیں احسان جتا کر دیتے ہو وہ ان کا حق ہے، ان کا بیمہ کروانا، ان کی سوشل سیکورٹی، تعلیم اور صحت کی سہولتیں لیبر قوانین کے تحت دینا تمہارا فرض ہے…! یہ باتیں سُن کر سیٹھ صاحب کا پارا چڑھ جاتا ہے اور پھر اسے نیچے لانے کے لئے ایک آدھ ملازم کی ’’بلی‘‘ چڑھانی پڑتی ہے۔ بات ان سیٹھ صاحبان تک محددو نہیں۔ معاشرے کے وہ تمام لوگ جو اپنے تئیں بڑے طرم خان ہیں، اس زعم کا شکار ہیں کہ انہیں خدا نے صلاحیت، ذہانت اور ٹیلنٹ سے نوازا ہے، یہ ان کی محنت کا نتیجہ ہے کہ وہ فیکٹریوں اور زمینوں کے مالک ہیں، لوگ ان کے آگے ہٹو بچو کی آوازیں لگاتے ہیں، اسی لئے انہیں زمین پر پاؤں مار کر چلنے میں مزا آتا ہے۔ بے شک ان پر خدا ہی کا احسان ہے جس نے انہیں یہ شان و شوکت اور مرتبہ عطا کیا، انہیں اپنی محنت کا ثمر بھی ملتا ہے، مگر یہ ادھوری حقیقت ہے۔
خدا یہ بھی کر سکتا تھا کہ یہ لوگ کسی بھٹہ مزدور کے گھر بھی پیدا ہو جاتے، اُس صورت میں ان کی قابلیت، صلاحیت اور ذہانت کسی بھٹی میں جل کر خاکستر ہو جاتی اور دنیا میں کامیابی کا کوئی فلسفہ، کوئی تھیوری اور کوئی نسخہ ان کے کسی کام نہ آتا۔ سو رمضان کے اس مبارک مہینے میں یہ سیٹھ صاحبان اگر محض صدقہ و خیرات کرنے کی بجائے اپنی فیکٹریوں، کمپنیوں اور دفاتر میں کام کرنے والوں کو انسان سمجھ کر لیبر قوانین نافذ کرلیں تو ان کا منافع دنیا میں تو کم ہو جائے مگر آخرت میں اس منافع کی کوئی حد نہیں ہوگی۔ خدا کی خوشنودی کی خاطر کیا یہ اتنا ہی مشکل کام ہے؟
تازہ ترین