پاکستانی سیاست اور اداروں کا ارتقاء

October 23, 2021

تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان 74برسوں سے سیاسی اور سماجی تنزلی کا شکار رہاہے لیکن عمران خان کی تین سالہ حکومت نے اس تنزلی پر گویا کہ مہر ثبت کر دی ہے۔

انہوں نے ایک منظم طریقے سے اداروں کی تھوڑی بہت جو روایتیں ارتقا پذیر ہو رہی تھیں انہیں اپنی حاکمانہ سوچ کی نذر کر دیا۔ پارلیمنٹ ہو، الیکشن کمیشن ہو، نیب ہو، سیکورٹی اور انصاف کے ادارے ہو ں، ان میں جو ادارہ جاتی کونپلیں پھوٹ رہی تھیں عمران خان نے انہیں کچل کررکھ دیا۔

الیکشن کمیشنر کی تضحیک کی گئی اور ان پر رشوت لینے کے الزامات لگائے گئے اور جب انہوں نے ای وی ایم مشین اور ای ووٹنگ کی مخالفت میں موثر دلائل دیئے تو عمران خان اور انکی ٹیم بجائے اس کے کہ دلائل سے کام لیتی، آگ بگولہ ہوگئی اور غیر پارلیمانی زبان استعمال کرنے لگی۔

نیب کے ادارے کو صرف اپنے سیاسی مخالفین کو جیل میں ڈالنے کیلئے استعمال کیا اور جب انکے اپنے ساتھی اس کی لپیٹ میں آنے لگے تو ایک آرڈینس کے ذریعے ان کا تحفظ کیا گیا۔

انصاف کے اداروں میں اپنی پسند کے بنچ بنوائے گئے جس پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس مقبول باقرنے ایک معرکۃآلارا فیصلے میں اس کے دور رس منفی نتائج کی نشان دہی بھی کی۔ گو کہ حزب اختلاف کی پارٹیاں بھی یہ بات تسلیم کرتی ہیں کہ آئی ایس آئی چیف کی نامزدگی پرائم منسٹر کا استحقاق ہے لیکن جب آپ خود آئین اور قانون کی زیادہ پرواہ نہیں کرتے تو لوگوں کو آپ کے ہر فیصلے سے حاکمانہ سوچ کی بو آتی ہے۔

کچھ مبصرین کی یہ خام خیالی ہے کہ سیکورٹی ادارے کے سربراہ کے نوٹیفکیشن کی اصل وجہ قانون سازی کی کمی ہے اور عمران خان اس کو ادارہ جاتی شکل دینا چاہتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے لیڈر فرحت اللہ بابر نے کئی بار یہ بیان دیا ہے کہ انکے ساتھیوں نے جب بھی یہ کوشش کی کہ اس سلسلے میں کوئی موثر قانون سازی کی جائے تو ان کی کوششوں کو روک دیا گیا۔

عمران خان کے دور میں اداروں کی تنزلی کی اصل وجہ وہ سوچ ہے جس پر رمیز راجہ نے ایک دفعہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب عمران خان کرکٹ کھیلتے تھے تو وہ نہ صرف ٹیم کے کپتان ہوتے تھے بلکہ سلیکٹر، منیجر اور بورڈ کے چیئر مین بھی وہ خود ہوا کرتے تھے۔

غالباً اسی ہیروازم کے تصور نے عمران خان میں حاکمانہ سوچ کو پروان چڑھایا، لیکن اکیسیویں صدی کے جمہوری دور میں ہیروز پرکوئی معاشرہ ا نحصار نہیں کر سکتاکیونکہ ہیروکی تنہا ذات سماجی تبدیلی کا محرک نہیں بن سکتی جب تک کہ معاشرے کی سیاسی، سماجی اور معاشی قوتیں اس کے ساتھ نہ ہوں۔

یاد رہے کہ آج کا یورپی سیاسی سماج ارتقا پذیر ہو کر انسانی معراج کی ان بلندیوں کو چھو رہا ہے جہاں پورا نظام ایک تیل پلائی مشین کی طرح کام کرتاہے اور وہاں شخصیتیں وقت کے ساتھ آتی جاتی رہیں۔

یورپین معاشرے کے مقابلے میں تیسری دنیا میں بالعموم اور سائوتھ ایشیا میں بالخصوص ہیروز اصولوں سے بڑے ہو جاتے ہیں اور یہی سیاسی اداروں کی تنزلی کا موجب بنتے ہیں۔ آج کا ہیرو قدیم رزمیہ نظموں کا ہیرو نہیں بن سکتا۔ یہ وہ سبق ہے جسے ہم جیسے پسماندہ ملکوں کے لیڈروں کو سیکھنا ہوگا۔

حال ہی میں ورلڈ جسٹس پروجیکٹ رول آف لا انڈیکس 2021کی رپورٹ کے مطابق پاکستان قانون کی بالادستی، شفاف حکومت، کرپشن، بنیادی حقوق اور امن و سلامتی کے معاملات میں مجموعی طور پر 139ملکوں کی فہرست میں 130ویں نمبرپر ہے۔

سائوتھ ایشیا کی رینکنگ میں بھی دیکھا جائے تو پاکستان نیپال، سری لنکا اوربھارت سے بھی پیچھے ہے جبکہ پاکستا ن سے زیادہ خراب کارکردگی صرف افغانستان کی ہے۔ آج اس قد رمہنگائی بڑھ گئی ہے کہ ریاست اور لوگوں میں رشتے کا مکمل فقدان پایا جاتا ہے۔

لگتا ہے کہ عوام کسی اور سیارے پر رہتے ہیں اور حکمران طبقات کسی اور سیارے پر، ان میں کسی بھی رشتے کا مکمل فقدان ہے جس کی وجہ سے اخلاقی اقدار معاشرے سے اٹھ چکی ہیں اور نہ تو قانون اور نہ ہی مذہبی تعلیمات ان اقدار کو قائم رکھ پارہی ہیں۔

آج پاکستان میں سب سے اہم ذمہ داری جہاں سیاستدانوں پر ہے، وہاں اسٹیبلشمنٹ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی 74سالہ کوتاہیوں سے سبق حاصل کرے، سیاست کو سیاست دانوں کے حوالے کر ے اور کنونشن لیگ، قاف لیگ اور باپ پارٹیوں کے تسلسل کو ہمیشہ کیلئے خیر باد کہہ دے۔

سیاستدانوں کی بھی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو قیادت دیں جو دونوں پائوں زمین پر رکھ کر حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پاکستانی ریاست کو ایک فلاحی ریاست بنانے کی راہ پر گامزن کر سکیں۔

2018ء کے الیکشن سے پہلے سائو تھ پنجاب سے جن تیس سے پینتیس امیدواروں نے راتوں رات مسلم لیگ ن کے ٹکٹ واپس کیے تھے، ان کو اپنی پارٹی میں واپس نہ لیا جائے۔

بلوچستان میں باپ پارٹی میں شامل ہونے والوں کو دوسری سیاسی پارٹیاں اپنے قریب نہ آنے دیں اور وراثتی اور خاندانی سیاست کو ہمیشہ کیلئے خیر باد کہہ دیا جائے۔ ہندوستان کی طرح پاکستان میں بھی الیکشن کمیشن کو پروان چڑھنے دیا جائے اور اسکے لیے الگ سے بجٹ مختص کیا جائے اور اسکے فیصلوں کو صرف سپریم کورٹ میں ہی چیلنج کیا جائے۔

آج وقت کی اہم ضرورت ہے کہ پاکستان میں انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کی بقا کیلئے سیاسی پارٹیاں، مزدوروں،طالب علموں، وکیلوں اور دوسری سول سوسائٹی کی تنظیمیں یک جا ہو کر آئین کی پاسداری کی پُر امن تحریک کو آگے بڑھائیں وگرنہ آنے والی نسلیں ہمیں اچھے ناموں سے یاد نہ کریں گی۔