فکر اقبالؒ میں فرد اور ریاست کا تصور

November 09, 2021

ڈاکٹر غافر شہزاد

علامہ اقبال نے پاکستان کا تصور پیش کیا، اس حوالے سے اکثروبیشتر تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔حوالے کے طور پر خطبہ الہ آباد کے نقاط بھی پیش کیے جاتے ہیں ،کہ جن میں علامہ اقبال نے نہ صرف دو قومی نظریہ کی پرزور حمایت کی بل کہ نہایت واضح انداز میں اپنا نقطہ نظر واضح کیا کہ وہ کیوں بار بار اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کو ایک الگ خطہ کی ضرورت ہے جہاں وہ اپنی مرضی اور اسلام کے ضابطہ حیات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔

اس بات پر ہمارے دانشوروں کے حلقے میں اکثر مباحث ہوتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد اب اس ملک میں ایک ہی قوم بستی ہے اور اب دو قومی نظریہ کے پرچار کی کیا ضرورت ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسے دانشور نہ تو اقبال کے بنیادہ فلسفے کے سمجھتے ہیں اور نہ ہی وہ غیر جانب داری سے اس کا تجزیہ کرنے کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار پاتے ہیں۔

یہ وہ طبقہ ہے جو نیٹشے کے اس خیال کا پیروکار ہے کہ خدا کے وجود کی اب ضرورت نہیں۔ نیٹشے ایک جانب نفی کی بات کرتا ہے تا کہ اس سے انسان کی ذاتی خوبیوں اور اوصاف کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔اسی نفی اور اثبات کے درمیان میں نیٹشے کے دلائل پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ مگر علامہ اقبال کی فکر اور اس کے نظریات اس حوالے سے بہت واضح ہیں۔

علامہ اقبال نے اپنے صدارتی خطبہ الہ آباد میں نہایت وضاحت سے کہا تھا اسلام ایک زندہ قوت ہے ، اسلام فرد اور ریاست دونوں کی زندگی میں اہم کرادرا دا کرتا ہے۔ اور یہی طاقت انسان کے ذہن کو وطن اور نسل کے تصور کی قید سے آزاد کراتی ہے۔ پاکستان اس وقت جس دوراہے پر کھڑا ہے اور جس طرح ہمارے دانشور حلقے ریاست اور فرد کو الگ الگ تناظر میں دیکھتے ہیں اور اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ فرد کو آزادی ملنی چاہیے مگر مذہب اس کا ذاتی مسئلہ ہونا چاہیے۔

ہمارے سوشل اور الیکٹرونک میڈیا کے بائیں بازو کے دانشور اس نقطہ نظر کے قائل ہیں کہ مذہب کے قوائدو ضوابط انفرادی سطح پر لاگو ہونا چاہیے اور ریاست کو جدید جمہوری تصور کے تحت اپنا نظام چلانا چاہیے۔ یہی بات تو علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں نہایت صراحت سے بیان کی تھی کہ فرد اور ریاست کو اگر کوئی قوت باندھ سکتی ہے تو وہ اسلام کا جامعہ ضابطہ حیات ہے۔بار بار اس بات کی تکرار کی جاتی ہے کہ کہاں ہے ریاست مدینہ؟ ریاست مدینہ تو ایک ایسی ریاست کا تصور ہے جہاں فرد ریاست کے ساتھ اسلام کے جامع ضابطہ حیات کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔

یہ ضابطہ حیات کیا ہے؟ خطبہ الہ آباد میں علامہ اقبال نے مغربی تصور زندگی کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے بتا دیا تھا کہ یورپ میں مذہب فرد کا ذاتی مسئلہ ہے۔ وہاں فرد روح اور مادہ میں تقسیم ہے۔ریاست اور کلیسا جدا ہیں۔ اسی بات پر انہیں فخر ہے اور یورپ کی روشن خیالی کی تحریک اور مارٹن لوتھر کی تمام لڑائی فرد کی اسی آزادی اور فرد اور مذہب کے ذاتی ہونے کے گرد گھومتی ہے۔ یورپ میں خدا اور کائنات میں کوئی تعلق نہیں۔ اس کے برعکس اسلام کے ضابطہ حیات اور مولانا رومی ؒکے تصور کائنات میں نظریہ وحدت الوجود ایسے تمام سوالات کے جوابات دیتا ہے۔

یورپ میں فرد کو ریاست کا ایک ادنی کارکن قرار دے کر اسے احساس تنہائی کے سمندر میں پھینک دیا گیا ۔ وہ کارل مارکس کے تصور بے گانگی کا شکار ہو گیا۔ فرد نے کبھی خود کو ریاست کا حصہ نہیں مانا ، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ریاست سے الگ تھلگ محسوس کرتے ہوئے، ریاست سے بار بار ٹکراتا ہے اور ریاست سے اپنے حقوق مانگتا دکھائی دیتاہے۔ یورپ کے تصور ریاست میں ریاست کا وجود خدا کا درجہ حاصل کر گیاہے۔ زمین و آسمان کے تمام ذرایع ریاست کے قبضے میں ہیں، ریاست جسے چاہے، اسے نواز دے۔ حکومت کرنے کا اختیار یورپ میں ریاست فرد کو دیتی ہے۔

اس سوچ اور تصور نے باہم ایک مقابلے کی فضا پیدا کر رکھی ہے۔ریاست پہلے مشینوں اور اب ٹیکنالوجی کے ذریعے فرد کو اپنا غلام بنائے ہوئے ہے۔یہی بات اقبال نے اپنے خطبہ میں کہی تھی کہ فرد روح اور مادے میں تقسیم ہے۔روح اور مادے کی تقسیم نے فرد کو یورپ میں ایک ایسے مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں افراد اکائیوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ اسی طرح خدا اور کائنات میں یورپ میں کوئی تعلق نہیں۔ اس کے برعکس اقبا ل نے واضح کر دیا تھا کہ اسلام ایک وحدت ہے اور اسلام میں فرد اور ریاست میں ایسی کوئی تقسیم نہیں۔ اسلام چند عقائدکا مجموعہ نہیں ،ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔مذہب کو فرد اور ریاست کی زندگی میں بہت اہمیت حاصل ہے۔علامہ اقبال نے سارتر کے برتر انسان کی بھی تردید کی اور فرد کے تصور خودی کو اجاگر کیا۔

فرد اور ریاست کے درمیان اسی تعلق کو اجاگر کرتے ہوئے علامہ اقبال نے ہندستان میں دو قومی نظریہ کو استقامت دی اور ہندو اور مسلم کے الگ الگ ہونے کے اس ثقافتی نظریہ کو پیش کیا جہاں آج یورپ کے دانش ور فکری سطح پر پہنچے ہیں۔ اور وہ مختلف خطوں اور قوموں کے درمیان تفریق کی بنیاد ثقافت کو قرار دیتے ہوئے، زبان اور الفاظ کی الگ الگ ثقافت کے نظریات کو پیش کرتے ہیں۔ بیسویں صدی کی اہم ترین کتاب ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ اگر سچ پوچھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا خمیر علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد سے اٹھاہے۔

یہ بات علامہ اقبال بیسویں صدی کے آغاز میں برطانوی حکومت کے بااختیار لوگوں کو سمجھانا چاہتے تھے کہ ہندستان میں ایک ہزار سال اکٹھے رہنے کے باوجود بھی ہندو اور مسلم دو الگ الگ قومیں ہیں۔ ان کی زندگی، ترجیحات، سوچ، طرز رہن سہن اور مذہبی و ثقافتی نظریات الگ الگ رہے ہیں۔ علامہ اقبال نے یہاں متحدہ قومیت کا تصور بھی واضح کیا کہ جس طرح یورپ میں متحدہ قومیت کا تصور ہے، ہندستان میں ایسا نہیں ہے ۔ یہاں الگ الگ قومیں آباد ہیں جن کا طرز رہن سہن، مذہبی رسومات اور حیات و کائنات کے حوالے سے نظریات الگ الگ ہیں۔اسی دلیل کو بنیاد بناتے ہوئے علامہ اقبال نے ہندستان میں مسلمانوں کے لیے الگ ملک کے قیام کی اہمیت کو واضح کیا تھا۔

پاکستان کے قیام سے پہلے فرد اور ریاست کاتصور الگ تھا۔ اس لیے کہ ریاست کے امور اور طاقت ایک بیرونی قوم کے ہاتھ میں تھی۔ اس قوم نے یہاں موجود تمام اقوام کو ایک ہی انداز سے کنٹرول کرنا تھا۔مگر جب ایک ملک میں ایک ہی قوم آباد ہو گئی تو پھر تفریق ہو گئی۔ اس تفریق کا بیج بھی انگریزوں کی روشن خیالی کے نام نہاد نظریات نے ہی بویا تھا۔یورپ کی طرح پاکستان میں بھی معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ایک جانب وہ روشن خیال لوگ تھے جو یورپ کی ریاست کے نظریات سے جڑے ہوئے تھے اور دوسری جانب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کے مد مقابل اقبال کے تصور ریاست اور ریاست اور فرد کے تعلق کو نبھانے والے لوگ ہوتے مگر ایسا ہو نہ سکا۔

فرد اور ریاست کو اسلام کی جس قوت نے ایک جگہ رکھنا تھا، وہ بھی تقسیم ہو گئی اور وہ وحدت الوجود کی اکائی پیدا نہ ہو سکی۔ جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے انتشار، احتجاج اور دھرنوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے جو وطن عزیز کو کمزور سے کمزور تر بناتے چلے جا رہے ہیں۔ نوآبادیات کا نظام یہاں سے چلا گیا مگر اپنی روح یہیں چھوڑ گیا۔ ہم فرد اور ریاست میں اسلام کے جامع ضابطہ حیات کی بنیادوں پر تعلق استوار نہ کر سکے اور کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔