ای وی ایم: تحفظات و خدشات

November 25, 2021

اسلام آباد میں پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کے اعتراضات اور واک آؤٹ کے باوجود انتخابات میں رائے شماری کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے استعمال کا ترمیمی بل منظور کیاگیا۔اس بل کے تحت 2017 کے الیکشن ایکٹ میں دو ترامیم کی گئی ہیں جو کہ ووٹنگ کے لیے الیکٹرانک مشینوں کے استعمال اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ کا حق دینے سے متعلق ہیں۔

بل کی منظوری کے بعد اپوزیشن کے ارکان اسمبلی ایوان سے واک آؤٹ کر گئے تھے۔ الیکشن کمیشن بلکہ اپوزیشن جماعتوں کے تمام تر تحفظات اور مخالفت کے باوجود حکومت نے انتخابی اصلاحات کا بل پارلیمنٹ سے منظور کروایاگیا جس کے بعد الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حق میں حکومت کے جبکہ مخالفت میں اپوزیشن کی جانب سے دلائل کا سلسلہ جاری ہے۔

قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے اسے پارلیمنٹ کی تاریخ کا سیاہ دن قرار دیاتھا جبکہ پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو نے قوانین کی منظوری کو سپریم کورٹ سمیت ہر فورم پر چیلنج کرنے کی بات کی تھی۔ پارلہمنٹ کےمشترکہ اجلاس کے دوران ایک قانونی تنازعہ یہ بھی کھڑا ہوا تھاکہ حکومتی بل پاس کرانے کے لیے ایوان میں اس وقت موجود اراکین کی اکثریت ہی درکار ہے یا پھر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران کی تعداد ملا کر اکثریت درکار ہو گی۔اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا تھاکہ پارلیمنٹ کی روایات کی دھجیاں اڑا کر قانون بلڈوز کروانا غلط بات ہے۔

حکومت کا مشاورت کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اپوزیشن اراکین کو داد دیتے ہیں کہ وہ حکومتی دباؤ میں نہیں آئے۔ان کا کہنا تھا کہ سوچ بہت محدود ہے کہ بلز کو بلڈوز کیا جائے لیکن انہیں عوام سے ووٹ ملنا مشکل ہے اسی لیے مشین کے ذریعے کسی طریقے سے سلیکٹڈ حکومت کو طول دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ای وی ایم کو ’ایول اینڈ وشیز مشین‘ قرار دے کرکہاتھاکہ حکومت کی نیت میں فتور ہے اس لئے کالے قوانین پاس کرانا چاہتے ہیں۔ ادارہ شفاف الیکشن کرانے کا ذمہ دار ہے ان کے اعتراضات کے باوجود حکومت الیکشن قوانین میں تبدیلی کرنا چاہتی ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے سامنے سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بریفنگ کے دوران بتایا تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا بل تو پاس ہو گیا لیکن کمیشن آئندہ انتخابات ای وی ایم کے مطابق کروانے کا پابند نہیں، اس مشین کا استعمال اگلے الیکشن میں ہو گا یا نہیں۔

ابھی اس حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔اس کے استعمال میں کئی چیلنجز درپیش ہیں اور ہمیں اس سے پہلے14 کٹھن مراحل سے گزرنا ہو گا۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے قائمہ کمیٹی کو بریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ای وی ایم کے استعمال میں درپیش مسائل اور مشکلات کی تفصیلات بتائیں اور کہا کہ ہمیں اس منصوبے کے تین سے چار پائلٹ پروجیکٹس کرنا پڑیں گے، جس کے لئے خاصا وقت درکار ہو گا۔ ایک پولنگ سٹیشن پر کتنی ووٹنگ مشینیں چاہئیں اس کا تعین بھی تاحال نہیں کیا جا سکا۔یہاں مسئلہ صرف دھاندلی کے خدشات کا نہیں بلکہ اور بھی مسائل بتائے جاتے ہیں۔

مثلا ان مشینوں کو کہاں سے حاصل کرنا ہے، ان کی کوالٹی اور کام کون چیک کرے گا،اس سارے پراجیکٹ پر کتنا خرچ آئے گا،پانچ برس بعد کیا ضمانت ہے کہ یہ ٹیکنالوجی اس وقت بھی قابل استعمال ہو وغیرہ وغیرہ۔الیکشن کمیشن آف پاکستان اور حکومت کے درمیان الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال پر ایک بڑا تصادم نظر آرہا ہے، وزراء مسلسل اپنے بیانات کی صورت میں الیکشن کمیشن کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن یہ واضح کر رہا ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات کا مخالف نہیں ہے۔ اپوزیشن یہ سوال بھی اٹھا رہی ہے کہ اگر ان مشینوں نے انتخابات میں آر ٹی ایس کی طرح کام کرنا چھوڑ دیا تو متبادل کیا ہو گا؟

قابل ذکر بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے این اے133 لاہور کے ضمنی انتخاب میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال نہ کرنے کا فیصلہ ‏کیا ہے۔امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو ضمنی انتخاب میں تجرباتی بنیادوں پر استعمال کیا ‏جاسکتا ہے تاہم فی الحال ای وی ایم کا استعمال موخر کیا گیا ہے۔این اے 133 کے ضمنی انتخاب میں 5 دسمبر کو پولنگ ہوگی۔ پی ٹی آئی کو بڑا دھچکہ اس وقت لگا جب الیکشن کمیشن نے وزیر اعظم کے سابق مشیر جمشید اقبال چیمہ اور ان کی اہلیہ مسرت جمشید جو کورنگ امیدوار تھیں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے مطابق جمشید اقبال چیمہ اور ان کی بیوی کے کاغذات نامزدگی میں تجویز کنندہ کا ووٹ متعلقہ حلقہ میں درج نہ ہونے کی بنیاد پر مسترد کیے گئے ۔عوامی حلقوں میں یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ جو امیدوار کاغزات نامزدگی درست پر نہیں کر سکتے وہ قومی امور میں کتنے اہل ہوں گے ؟ملک میں سیاسی صورتحال کا تذکرہ کیا جائےمتحدہ اپوزیشن اتحادبھی اس وقت حکومت کے خلاف سرگرم ہے اورپی ڈی ایم مختلف شہروں میں اجلاس کررہی ہے۔

مولانا فضل الرحمان سے پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے خصوصی ملاقات کی تھی۔ان دونوں کے رابطے بتاتے ہیں کہ آنے والے وقتوں میں پی ڈی ایم کی سرگرمیاں نہ صرف تیز ہوں گی بلکہ اپوزیشن بھی پورے جوبن پر ہوگی۔