خون بھی انصاف مانگتا ہے

November 30, 2021

جب بھی خون میں نہائی ہوئی وادیٔ کشمیر کو دیکھتا ہوں تو عالمی امن کے ٹھیکیداروں کی دو رخی صاف دکھائی دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی مسلم ممالک کی بےبسی اور بےحسی یاد آ جاتی ہے۔ کشمیری بھی کمال کے لوگ ہیں، صدیوں سے جبر کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں، آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، روز جوانوں کے جنازے اٹھاتے ہیں مگر حوصلہ نہیں ہارتے، ہمت نہیں ہارتے، کشمیریوں کا اس سے بھی بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اُس دور میں بھی غلامی قبول نہیں کی تھی جب پورا برصغیر اپنے بیرونی آقائوں کو سلام کر رہا تھا۔ ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ تو صدیوں پرانی ہے مگر جدید تاریخ کا آغاز 16مارچ 1846کے معاہدہ امرتسر سے ہوتا ہے۔ جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں شکست کے بعد سکھوں نے ریاست کو محض 75لاکھ نانک شاہی کے عوض مہاراجہ گلاب سنگھ کو بیچ دیا۔ کشمیریوں نے نہ سکھوں کی جابرانہ حکومت کو قبول کیا اور نہ ہی ڈوگرہ راج کو تسلیم کیا۔

کشمیریوں نے سکھوں کے خلاف مزاحمتی تحریک کا آغاز 1827میں اس وقت کیا جب انہوں نے سری نگر کی جامع مسجد کے دروازے بند کئے۔ اس سال زبردست لڑائی ہوئی۔ 1832میں پونچھ کے سدھن قبیلے کے سرداروں سمیت کئی افراد کی زندہ کھالیں کھنچوائی گئیں۔ 1846کے معاہدۂ امرتسر کے بعد ڈو گرہ راج آگیا۔ ڈوگرہ راج میں چار حکمران آئے یعنی مہاراجہ گلاب سنگھ، مہاراجہ رنبیر سنگھ، مہاراجہ پرتاب سنگھ اور مہاراجہ ہری سنگھ، ڈوگرہ راج میں بھی کشمیریوں پر ہر طرح کا ظلم و ستم ہوتا رہا۔ اپریل 1931میں نماز عید کی ادائیگی کو بھی پابندیوں میں جکڑدیاگیا۔ جولائی 1931کا ایک واقعہ ایسا ہے جسے زمین کے علاوہ آسمانوں پر بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ واقعہ سری نگر کی سنٹرل جیل میں ایک مقدمہ کی سماعت کے وقت پیش آیا۔ جب ظہر کا وقت ہوا تو ایک کشمیری نوجوان اذان کے لئے اٹھا، اللہ تعالیٰ کا نام بلند کیا تو اسے ایک ڈوگرہ سپاہی نے گولی مار دی، پھر اذان کی تکمیل کیلئے دوسرا جوان کھڑا ہوا، اسے بھی گولی مار دی گئی، بائیس کشمیری نوجوانوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اذان مکمل کی۔ شہادت کی یہ داستان قابل فخر بھی ہے اور قابل ناز بھی۔ ریاست جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی پہلی نمائندہ سیاسی جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس ہے۔ اس کا قیام اکتوبر 1932ء میں عمل میں آیا۔

جون 1947ءمیں تقسیم برصغیر کے منصوبے کا اعلان ہوا۔ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی مگر یہاں کا ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ مذہبی بنیاد پر ہندوستان کا حامی تھا اسی لئے 19جولائی 1947کو سری نگر میں سردار ابراہیم کی آبی گزر پر قائم رہائش گاہ پر جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا کنونشن ہوا جس میں ایک قرارداد منظور کی گئی۔ قرار داد یہ تھی ... ’’مسلم کانفرنس کا یہ کنونشن بڑے غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ جغرافیائی، اقتصادی، لسانی اور مذہبی اعتبار سے ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہایت ضروری ہے کیونکہ ریاست کی آبادی کا 80فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور پاکستان کے تمام بڑے دریا، جن کی گزر گاہ پنجاب ہے، کے منبع وادیٔ کشمیر میں ہیں، ریاست کی سرحدیں تو پاکستان کی سرحدوں سے پہلے ہی ملتی ہیں اور ریاست کے عوام بھی پاکستان کے ساتھ مذہبی، ثقافتی اور اقتصادی رشتوں میں مضبوطی سے بندھے ہوئے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ریاست کا الحاق پاکستان سے کیا جائے، یہ کنونشن مہاراجہ کشمیر سے پُرزور مطالبہ کرتا ہے کہ کشمیری عوام کو داخلی طور پر خود مختاری دی جائے اور مہاراجہ ریاست کے آئینی سربراہ کی حیثیت اختیار کرتے ہوئے ریاست میں ایک نمائندہ قانون ساز اسمبلی تشکیل دیں اور دفاع، مواصلات اور امور خارجہ کے محکمے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے سپرد کئے جائیں...‘‘ بعد میں مزدور کسان کانفرنس اور کشمیر سوشلسٹ پارٹی نے بھی قرار داد الحاق پاکستان منظور کی۔ریاست جموں و کشمیر کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی سوچ مسلمانوں کے خلاف تھی لہٰذا وہ کسی بھی صورت میں کشمیر کا الحاق پاکستان سے نہیں چاہتا تھا، اس نے اپنی پولیس اور فوج سے مسلمانوں کو نکالنا شروع کیا۔ اس نے مسلمانوں سے اسلحہ بھی جمع کرنا شروع کردیا۔ مہاراجہ کے ان اقدامات کی وجہ سے ریاست جموں و کشمیر کے عوام نے محسوس کیا کہ مہاراجہ پاکستان کی بجائے ہندوستان کی طرف راغب ہے۔ اس مرحلے پر انہوں نے ڈوگرہ حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلہ میں 15اگست 1947کو راولا کوٹ میں اجلاس ہوا۔ 17اگست کو راولا کوٹ ہی میں ریلی ہوئی۔ 23اگست کو نیلہ بٹ میں اجلاس ہوا۔ 26اگست کو باغ سمیت کشمیر کے دیگر علاقوں میں اجتماعات ہوئے جس کے بعد ڈوگرہ حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا گیا۔ 6ستمبر 1947کو باغ میں متحرک رہنما سید خادم حسین شاہ کو گرفتار کرکے شہید کردیا گیا۔ اگست، ستمبر اور اکتوبر کے مہینوں میں اس طرح کے کئی واقعات ہوئے۔ ڈوگرہ فوج اور مقامی مجاہدین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

6اکتوبر 1947کو مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست کی بائونڈری فورس اور پولیس کے سربراہ پاول کی جگہ ایک ہندو کو لگا دیا تاکہ کشمیری مسلمانوں پر ظلم بڑھایا جاسکے۔ 17اکتوبر 1947کو صحافتی پابندیاں لگا دی گئیں تاکہ ریاست کے الحاق اور ظلم و ستم کی کوئی خبر عوام تک نہ پہنچے۔ اس پابندی سے پہلے مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کی طرف سے بائونڈری کمیشن کے ایک رکن مہر چند مہاجن کو جموں و کشمیر کا وزیراعظم نامزد کردیا تاکہ ریاست کا ہندوستان سے الحاق یقینی بنایا جا سکے۔ 14اکتوبر 1947ءکو اکالی دل اور راشٹریا سیوک سنگھ کے کارکنوں نے جموں میں مسلمانوں کو شہید کرکے پورا گائوں جلا دیا۔ 17اکتوبر 1947کو بریگیڈئر این ایس راوت کو جموں بریگیڈ کا چارج دیا گیا۔ اسی دن سری نگر بھی ہندوستانی فوج کے حوالے کیا گیا کہ بقول محسن نقوی ؎

آوارگی میں محسن اس کی بھی ہنر جانا

اقرارِ وفا کرنا پھر اس سے مکر جانا

(جاری ہے)